Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Saain Adeel

Saain Adeel

سائیں عدیل

میرے گھر سے سکول کے راستے میں ایک نوکھر نامی قصبہ آتا ہے۔ میں گذشتہ دس سال سے نوکھر سے گزر کر اپنی ڈیوٹی پر آتا جاتا ہوں۔ یہ لڑکا اسی حلیے میں مجھے تقریبا ہر بار ملتا ہے۔ لوگوں کو گندی گالیاں دیتا ہے میرا کیونکہ دوست بن چکا ہے تو حال احوال پوچھ کر گزر جاتا ہوں۔ سائیں کے نام سے مشہور ہے۔ اصل نام شاید عدیل ہے۔

سائیں پنجاب میں اس بندے کو کہتے ہیں جو عقل و خرد میں دیگر لوگوں سے کچھ پیچھے ہو۔ آئی کیو لیول 70 سے کم ہو۔ صفائی ستھرائی اچھے برے پاکی ناپاکی کی تمیز نہ ہو۔

سائیں آج جس حالت میں ہے۔ کہ وہ صرف قمیض پہنتا ہے۔ کہ ناڑے کی گانٹھ لگانا نہیں آتی بلکہ ایلاسٹک والی شلوار بھی (بوقت ضرورت) اوپر نیچے کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ پیمپر میں تو ایسے نوجوان کو نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ وہ واش روم جانے کی حاجت کے وقت بتا سکتا ہے۔ اس معذوری کو ماضی میں Mental Retardation کہا جاتا تھا اور اب Intellectual Disability یعنی دانشورانہ پسماندگی کہا جاتا ہے۔

سائیں سارا دن سڑکوں پر گھومتا رہتا ہے۔ لوگ چھیڑتے ہیں وہ گندی گالیاں دیتا ہے تو لوگ اس ایکٹ کو انجوائے کرتے ہیں۔ بچے اسے دور سے وٹا مار کر گالیاں سنتے ہیں۔ بڑے اسے پرائیویٹ پارٹس کو ٹچ کرکے بھاگ جاتے ہیں اور ایسے ہی اسکی زندگی گزر رہی ہے۔ وہ تو نادان ہے بھولا ہے۔ مگر اسکا خدا سب کچھ دیکھ اور لکھوا رہا ہے۔ کہ اسکے بندے کو کس نے اذیت نے کس نے دعا دی کس نے دھکا دیا کس نے کھانا دیا کس نے بیڈ ٹچ کیا اور کس نے سر پر دست شفقت رکھا۔

اور پھر ایک دن سائیں، سائیں نہیں رہے گا۔ کہ جس دن کوئی نابینا، اپنی بینائی واپس پا لے گا، بغیر ٹانگوں کے پیدا ہونے والا بچہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوگا۔ ایک آٹسٹک بچہ اپنے والدین سے گفتگو کر پائے گا اورسماعت سے محروم لوگوں کی سماعت لوٹا دی جائے گی۔

اس روز انصاف ہوگا۔ سائیں تو شاید معافی دینے پر رضا مند ہو جائے مگر سائیں کا مالک اور خالق کیسے اپنے خلیفہ کی تذلیل، تضحیک اور اذیتوں کو کیا نہیں دیکھ رہا؟ خدا کے لیے ایک لمحے کو اپنے آپ کو یا اپنے لخت جگر کو سائیں کے چولے میں کھڑا کرکے دیکھیے۔ آپ کی روح کانپ جائے گی۔ آپ اور آپ کے بچے کیسے اس نیک روح کو ستا لیتے ہیں؟

سائیں صرف نوکھر میں ہی نہیں آپ کے آس پاس بھی تو کوئی ہوگا؟

اس نوجوان کو اگر بچپن میں سپیشل بچوں کے سکول بھیجا جاتا۔ تو وہاں اسے زندگی کے ابتدائی سالوں میں بنیادی کام سکھا دیے جاتے۔ جیسے کپڑے پہننا، دانت صاف کرنا، منہ دھونا، وضو کرنا، کھانا کھانا، پرسنل ہائی جین، تسمے باندھنا، جوتا پہننا، اور اسکے بعد سائیں ایسی حالت میں سڑکوں پر نہیں بلکہ اچھا بچہ بن کر کسی جگہ کوئی کام کاج کر رہا ہوتا یا کم از کم آوارہ گردی نہیں کرتا بلکہ اپنے گھر رہتا۔

کسی بھی سائیں کو پہلے سائیں اسکے گھر والے بناتے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم نہ کرکے۔ کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہے۔ بس تھوڑا سا سیدھا سادہ ہے۔ بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم کیوں پاگلوں کے سکول جائیں۔ وہاں تو اور خراب ہوجائے گا۔ وہاں ذیادہ پاگل بچے اسے ماریں گے۔

جس عمر میں اس بچے کو ٹریننگ دے کر اپنے کام خود کرنے کے قابل کرنا ہوتا ہے۔ اس عمر میں والدین اسے ڈاکٹروں کے پاس لے جا کر نشہ آور ادویات کھلا کر یہ سمجھ رہے ہوتے کہ بچے کا علاج ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو جائے گا اور ایسا کبھئی بھی نہیں ہونا ہوتا۔ جب تک بچہ ہمارے پاس آتا ہے اسکی سیکھنے کی عمر گزر چکی ہوتی۔

اور پھر ایسا بڑا بچہ جب معاشرے میں نکلتا ہے تو اسکی حالت اس تصویر والے سائیں سے مختلف نہیں ہوتی۔ یا اسے گھر میں قید کر دیا جاتا ہے۔

سچ کو قبول کرنا اور ان بچوں کے علاج کے ساتھ ٹریننگ دلوانا ہی ان کو اپنے کام خود کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ نہ کہ سچ سے آنکھیں موڑ کر کسی معجزے کا انتظار کرتے رہیں اور پھر باقی کی عمر اس ضائع شدہ وقت پر افسوس کرکے خود کو کوستے رہیں۔

Check Also

Europe Aur America Ka Munafqana Khel

By Asif Masood