Doosri Shadi
دوسری شادی
گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ہو ناں اسکی قیمت تو کافی زیادہ گر ہی جاتی مگر اسکے گاہکوں میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی۔ یہی اصول ایکسیڈینٹ شدہ انسانوں کے متعلق بھی نہ صرف دیکھا بلکہ سہا بھی ہے۔ کہا یوں جاتا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ اور دونوں کو قصوروار قرار دیا جاتا۔ بڑے قریبی دوست اور رشتہ دار ایسے واقعات پر دل چھلنی کرکے رکھ دیتے ہیں۔
یارو طلاق ایک حادثہ ہی تو ہے۔ جو کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ کون چاہتا ہے کہ اسکے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے؟ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جنکے روڑ ایکسیڈنٹ ہوجاتے۔ میرے اپنے کئی ہوئے ہیں۔ یہ حادثہ بھی بلکل ویسے ہی ہے۔ جو کسی کے بھی ساتھ کبھی بھی پیش آسکتا ہے۔
سمجھا ایسا جاتا ہے کہ مردوں کی دوسری شادی تو کنواری لڑکی سے ہی ہوجاتی ہے مگر لڑکی کو کوئی کنوارہ لڑکا قبول نہیں کرتا۔ لوگ لڑکی کی طلاق کا نام سنتے ہی ناک منہ چڑانے لگتے ہیں پھیکا سا ہاسہ ہس کر پیچھے ہوجاتے اور رشتہ دیکھنا تو دور اس آپشن پر بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
یونیورسٹی سے میری ایک جونیئر تھی۔ پورا ٹوٹا تھی۔ ٹوٹا سمجھتے ہیں ناں؟ لو میرج ہوئی۔ مگر شادی کے بعد محبوبہ بیوی بن جاتی ہے۔ وہ بات نہیں رہتی جو حاصل کرلینے سے پہلے ہوتی ہے۔ چیزیں تو حصول کے بعد قدر کھو ہی دیتی ہیں مگر یہ اصول انسانوں پر بھی لاگو ہے۔ لڑکی کو سمجھایا کہ شادی شدہ زندگی میں فنٹیسی نہیں ہوتی تم خود کو اب بیوی سمجھو محبوبہ نہیں۔ وہ سمجھ گئی۔ اسکا خاوند کسی اور جگہ انوالو ہوگیا۔ بلکہ شادی سے پہلے بھی انوالو تھا۔ مگر رشتہ نہ ہوسکا تھا۔ اب غلط وقت پر وہ اور اسکے گھر والے مان گئے۔ اس لڑکی نے کہا کہ پہلی بیوی کو چھوڑ دو میں تمہاری ہوئی۔
لڑکے نے مختلف ڈرامے شروع کر دیے۔ اور لڑکی کو پریشان کرنے لگا۔ لڑکی نے کہا صاف بات کرو کیا چاہتے ہو۔ اسنے کہا میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے امید تھی کہ یہ کہے گی مجھے چھوڑ دو یا میں نہیں کرنے دونگی۔ مگر اس نے کہا کر لو تمہیں اجازت ہے۔۔ لکھ کر بھی دے دیتی ہوں۔
مگر دوسری پارٹی طلاق پر ہی اڑی ہوئی تھی۔ قصہ مختصر پاکدامن لڑکی پر اس بیغیرت انسان نے بہتان لگا کر طلاق دے دی۔ اب والدین لڑکی کی دوسری شادی کی جہاں بھی بات کریں تو وہ لوگ ہاں کریں جنکی بیوی فوت ہو چکی ہو اور جوان بچے ہوں یا وہ عمر میں لڑکی سے ڈبل ہوں۔ لڑکی کی عمر 27 سال اور کوئی بچہ بھی نہیں۔
مگر حادثہ تو ہو چکا تھا۔ جس نے قدر و قیمت میں اتنی کمی کی جتنی سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ میں نے اسے اپنی مثال دی، کہ شمامہ سے شادی سے پہلے ایک دو جگہ پر بتایا میری علیحدگی ہوگئی ہے اور ایک بیٹی ہے۔ لوگ نہ صرف انکار کرتے بلکہ اچھا خاصا برا مناتے کہ ہم اپنی کنواری لڑکی کیوں ایک بیٹی کے باپ سے بیاہیں۔ پھر ایک سیانے بندے نے مشورہ دیا کہ یہ بات پہلے نہیں بتانی۔
ایسا ہی کیا۔ ہم نے رشتہ کرانے والے کو بھی نہیں بتایا تھا۔ شمامہ کے والد صاحب اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے مجھے دیکھنے آئے۔ اور پسند کر گئے۔ میرے گھر والے گئے اور لڑکی پسند کر آئے۔ اب وقت تھا کہ بات آگے بڑھنے سے پہلے شادی کا بتا دیا جائے۔ صرف شادی کا بتایا گیا۔ کیونکہ لڑکی والے مجھے دو بار مل چکے تھے۔ گھر والوں سے مل چکے تھے تو انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا۔ چند دن بعد عنایہ کا بتایا۔
اس پر تھوڑا سا رد عمل آیا کہ شادی والی بات کے ساتھ ہی بتا دیتے۔ خیر رشتہ ہوگیا شادی ہوگئی الحمدللہ تیسرا سال ہے۔ شمامہ خود کہتی ہے کہ اگر ہمیں پہلے بتایا جاتا لڑکے کی شادی ہوئی ہے اور ایک بیٹی بھی ہم کبھی یہ رشتہ دیکھنے ہی نہ آتے اور آپکی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مصلحت کے تحت بتدریج بات کھولی۔ ورنہ آپ مجھے کہاں ملتے۔ وہ عنایہ سے اتنی ہی محبت رکھتی ہے جتنی اسکی حقیقی ماں اور عنایہ بھی شمامہ کو چھوٹی ماما کہتی ہے۔
لڑکی کو جب یہ کہانی سنائی تو اس نے انکار کر دیا کہ ہم کسی کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ ایک سال تک ریجکیٹ ہوتی رہی۔ پریکٹیکل بندی تھی کہ ابھی تو جوان ہوں کوئی لے جائے گا۔ چند سال گزر گئے تو جو رشتے آرہے وہ بھی نہیں آنے۔ ایک طلاق یافتہ دو بچوں کے باپ سے رشتہ پر راضی ہوگئی۔
ابھی بات آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ اسے اسکے ایک فیس بک دوست نے میچور طریقے سے اپروچ کیا۔ اس نے مجھے بتایا۔ میں نے کہا لڑکا اچھا ہے تم اپنی شادی کا ابھی نہ بتاؤ۔ اور ایک بار مل لو۔ دونوں ملے تو دونوں کو یوں لگا وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔
لڑکی نے اب سچ بتا دیا۔ لڑکے نے کہا کہ یہ بات آج کے بعد کبھی بھی نہ کرنا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر میرے گھر والے اس بات کو قبول نہ کریں گے۔ بعد میں خود بتا دونگا اور قبول بھی کرا لونگا۔ نہ مانے کوئی مسئلہ بنایا تو اپنے ساتھ دوبئی لے جاؤں گا۔ اور اپنے کسی بھی رشتہ دار کو نکاح والے دن نہ بلانا۔ میں میرا ابو اور امی اور ایک بہن نکاح کرنے آئیں گے۔ ساتھ میرے دو دوست ہونگے۔
لڑکی کے والدین نہ مانے کہ ہم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ لڑکی نے خود ہی کورٹ میرج کر لی۔ لڑکی بہت اچھی تھی پیاری تھی لڑکے والے نے ناک منہ چڑھا کر قبول کرلی۔ لڑکے والے اب لڑکی کے گھر تو جانے سے رہے۔ اسکا ایڈریس بھی کوئی اور شہر بتایا گیا۔ لڑکے نے اپنے گھر کہا کہ اس کے سالے اسے تلاش کرکے جان سے مار سکتے ہیں اور بیوی کو لیکر اپنے ساتھ دوبئی چلا گیا۔ وہاں جاتے ہی بتا دیا کہ لڑکی طلاق شدہ تھی۔ ماں باپ نے بہت شور مچایا کہ تم پر اس نے کوئی جادو کر دیا ہے تم اسے چھوڑ دو طلاق پتا نہیں کیوں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔۔
اسنے کہا آپ جب اسے قبول کریں گے تو ہی آؤں گا۔ ورنہ پیسے ضرور بھیجتا رہوں گا خود نہ آؤں گا۔ اور اسے چھوڑنے کی بات تو دور اسے کسی نے گھر میں طعنہ بھی دیا تو کبھی پاکستان نہ آؤں گا۔ کل رات انکے ہاں ایک پیارے سے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔ اب دادا، دادی اور چچے تائے ننھے مہمان سے ملنے کو بیتاب ہیں۔ ترلے منتیں کر رہیں کہ فوراً واپس آجاؤ کوئی بات نہ کریں گے۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ لڑکی والوں کو معلوم ہوا کہ نواسہ ہوا ہے اور داماد نے بڑی عزت سے رکھا ہوا ہے تو انکا دل بھی نرم ہوگیا اور واپس بلا رہے ہیں۔ چند دن تک وہ جوڑا پاکستان آجائے گا۔
میں ایسی پریکٹس کرنے کا مشورہ ہر گز نہیں دونگا جو میں نے کی یا اس لڑکی نے مجھے کاپی کرکے کیا۔ مگر لڑکے اور لڑکی کے والدین سے بس اتنا کہوں گا کہ جن باتوں پر آپکی ناک کٹتی ہے یقین جانیں ان باتوں سے آپکے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ کی قسم بے شمار کنوارے لڑکے طلاق شدہ و بیوہ لڑکیوں سے شادی کرنے کو تیار ہیں اگر انکے گھر والے اور خصوصاً گھر کی خواتین یہ بات قبول کرلیں۔ مگر وہ نہیں ایسا ہونے دیتی۔ کہ ہمارے بیٹے کو ہزار رشتے ہیں کیوں طلاق والی لڑکی لائیں ہماری تو ناک کٹ جائے گی۔
یقین مانیے گاڑیاں حادثوں کے بعد ڈی ویلیو ہوتی ہیں۔ انسانوں کے معاملے میں انکی ویلیو بڑھ جاتی ہے۔ وہ برے ہی ہوتے ہونگے مگر ایسے بڑے سانحے اور جگ ہسائی کے بعد کوئی برائی باقی بچتی ہے؟ وہ تو نرم دل ہوجاتے ہیں۔ وہ سہہ جانے والے بن جاتے ہیں۔ وہ برداشت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ وہ نبھاہ کرنے والے بن جاتے ہیں۔ وہ کسی دھوپ میں گھنا سایہ بن کر ساتھ رہنے والے بن جاتے ہیں۔ اور اس چھاؤں کو وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس میں آپاتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے والے لاکھوں میں چند ہوتے تو صدیوں سے چلے آرہے اس مجموعی رجحان کو بدلنا کافی مشکل ہے۔
لڑکوں کو کہوں گا کہ آپ کنوارے ہیں اور کسی طلاق شدہ یا جوان بیوہ کا رشتہ معلوم ہونے پر اس سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بلکہ ہمت کریں اور گھر والوں کو پیار سے منائیں۔ ہر گاؤں شہر میں ایک آدھ ایسی شادی ہونے لگے تو امید ہے کہ ان شاءاللہ چند سالوں میں اس چیز کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جائے گا جتنا آج سمجھا جاتا۔
میں درس تو دے رہا ہوں اور خود کیوں کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہ کی؟ یہ سوال آپکے ذہن میں آنا چاہیے۔ پھر کسی وقت اس پر لکھوں گا۔ یار آج پہلے ہی بات بہت لمبی ہو چکی ہے۔