Wednesday, 13 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Iqra Maqbool
  4. Ab To Chup Chap Shaam Aati Hai

Ab To Chup Chap Shaam Aati Hai

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے

پہلے پرندوں کے شور ہوتے تھے

ایک وقت تھا کہ ہماری مائیں ہمیں صبح سویرے فجر کی نماز میں جگایا کرتیں تھیں ۔ کبھی اٹھنے میں دیر ہوجاتی تو چڑیوں کی چہچہاہٹ سے یہ بات عیاں ہوجایا کرتی تھی کہ نماز کا وقت ختم ہونے کو ہے اور اماں کی ڈانٹ کسننے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پرندوں کے لئےپیالے میں پانی رکھنا اور باجرہ ڈالنا کبھی ہم بچوں کے شوق ہوا کرتے تھے۔ شام کے وقت سب گھر والے ہرے بھرے صحن میں ساتھ بیٹھتے تو نیلے آسمان تلے سفید کبوتروں کی اڑان گویا موتیاں بکھر گئی ہوں، ہماری توجہ کا مرکز بنے ہوتے۔ بارش کے بعد طوطوں اور تتلیوں سے اپنے باغیچے کو لہلہاتے دیکھنا ہمیں اس قدر بھاتا کہ ان تتلیوں کا اتنا پیچھا کرتے کہ وہ تنگ آکر بھاگ ہی جاتیں ۔

ہمارے خالہ زاد بھائی نے چند پرندے پال رکھے تھے جنہیں قید دیکھ کر ہمارا بڑا ہی دل دکھتا تھا اس لئے ایک بار طوطوں سے باتیں کرتے کرتے خاموشی سے ان کا پنجرہ ہی کھول دیا پھر جو ہوا سو ہوا لیکن چڑیوں سے اتنا پیار تھا کہ کئی بار اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ہی ناکام رہے۔ اب سوچیں تو لگتا ہے کہ ہمارا بچپن کہیں نہ کہیں ان پرندوں کے ساتھ جڑا تھا ۔ بچپن کے ساتھ ساتھ یہ پرندے بھی کہیں گم ہوگئے لیکن وہ حسین و دلکش یادیں اور نظارے اب بھی ہمارے ذہن پہ نقش پا ہیں جس سے شاید آج کی نسل واقف ہی نہیں ۔ کوئل کی کی سریلی آواز اور کوؤں کی کائیں کائیں سے زمانہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ نے مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ جدید دور کے جدید تقاضوں کی وجہ سے ایک دنیا ہم سے روٹھ گئی ہے۔ جہاں بچے، بوڑھے، جوان ایک دوسرے سے انجان بنے بیٹھے ہیں وہیں پرندے بھی شدید توجہ کے طالب ہیں لیکن کراچی جیسے شہر جہاں انسان ہی رہائش، پانی، اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم ہوں وہاں پرندوں کے حقوق کی بات کرنا واقعی کسی عجوبے سے کم نہ ہوگا۔ کراچی میں جتنی تیزی سے تعمیراتی کام ہورہا ہے اتنی ہی تیزی سے درختوں کی کٹائی کا کام جاری ہے۔ اس عمل نے نہ صرف انسانوں کو متاثر کیا ہے بلکہ پرندے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں ۔

درختوں کی جگہ اونچی اونچی عمارتوں نے لے لی ہے۔ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں موسمی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے مہاجر پرندوں کی آمد کا سلسلہ بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک شمارے کے مطابق سائبیریا سے پاکستان آنے والے پرندوں میں 70 فیصد کمی آچکی ہے جس کی اہم ترین وجہ ان پرندوں کا بے دریغ شکار اور آب گاہوں کی آلودگی ہے۔ کھیتوں میں کیڑے مار ادویات اور ندی نالیوں میں زہریلے اسپرے پرندوں کی زندگی کی تباہی کا باعث بن ہے ہیں ۔ انسانوں کی اپنے گھر کو خوبصورت دکھانے کی خواہش نے جہاں درختوں کی کٹائی میں اضافہ کیا ہے وہاں پرندوں سے ان کے آشیانے بھی چھین لئے ہیں ۔ ورلڈ وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) ایکسپرٹس کے مطابق پرندوں کو رہنے کے لئے گھونسلے اور صحیح غذا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بددیسی درختوں کی کاشت اور پلاسٹک کی تھیلیوں نے پرندوں کی رہائش کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پرندے نہ صرف علاقے کی ماحولیاتی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ انسانی ذہن پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ خوبصورت پرندوں کی موجودگی سیاحت کو فروغ دیتی ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔شعبہ ماحولیاتی سائنس، جامعہ کراچی سے منسلک ہمارے اساتذہ کرام ڈاکٹر عامر عالمگیر اور ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہم اس منتقلی مرحلے پر ہیں جہاں ہم ماحول کو سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی۔ہ مرحلہ ہماری خوش قسمتی اور بدقسمتی دونوں بن سکتا ہے۔ کراچی کی فضاؤں کو پھر سے پررونق بنانے کے لئے نہ صرف حکومت بلکہ انفرادی سطح پر بھی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر فوری طور پر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو ممکن ہے کہ قدرت کے یہ حسین شاہکار آنے والی نسلوں سے پوشیدہ ہوجائیں اور یہ پرندے بھی انہیں مستقبل کی کتابوں میں ماضی کے اوراق پہ چسپاں ملیں ۔

درختوں پر پرندے لوٹ آنا چاہتے ہیں

خزاں رٌت کا گزر جانا ضروری ہوگیا ہے

Check Also

Aag Gulistan Na Bani

By Nasir Abbas Nayyar