Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Iqbal Shahid/
  4. Khudi Ya Khudgharzi?

Khudi Ya Khudgharzi?

خودی یا خود غرضی؟

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے

یہ شعر ہم میں سےہر ایک نے سنا اور پڑھا ہوگا اور بہت سوں نے اسے اپنی تحریر و تقریر میں استعمال بھی کیا ہوگا۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ ہم میں سے اکثر اس کے مطلب سے صحیح طور پر واقف ہیں۔

زمانے گزر گئے مگر یہ المیہ اپنی جگہ ہمیشہ برقرار رہا ہے۔ کہ اقبال کو کیسے سمجھا جائے، بہت سے لوگوں نے اپنے طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر کوئی اسے اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہتا یے۔ علما ہوں یا صوفیا سب ان کی تعلیمات کو اپنی جانب زبردستی موڑنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کا فکر و فلسفہ (خودی) ان دونوں سے بالکل ہی الگ اور جدا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے۔ کہ آج تک فکرِ اقبال کو محض فلسفہ کی بحث اور تخیلاتی دنیا تک ہی محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ کتابی دنیا میں اس پہ جو بھی کام ہوا وہ محض الماریوں کی زینت بنانے کے لیے رکھ دیا گیا۔ عام قاری یا عام آدمی کو اس کا کوئی فائدہ ہوا، نہ رسائی ملی۔ اور اقبال کی شاعری کو تو خاص طور پر اتنا پیچیدہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کہ عام آدمی اس کو نہ سمجھنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ کسی نے بھی اس کے معانی و مفہوم کو عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی۔

حالانکہ اقبال کی فکر اور خاص طور پہ ان کی شاعری محض افکار و اشعار کا مجموعہ نہیں ہے۔ بلکہ اپنے اندر عملی، روحانی، علمی اور نظری طور پر ایک مکمل تحریک ہے، ایک ضابطۂ حیات ہے۔ ایک مکمل نظامِ معاشرت ہے جو کسی بھی معاشرے اور قوم کی بقا اور عروج کا ضامن بن سکتا ہے۔

اور آج کی نوجوان نسل تو خاص طور پر بھی بالکل ہی نا آشنا ہے۔ کوئی اقبال شناس میسر ہی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی دعوی کرتا بھی ہے تو اپنے فائدے کی خاطر انتہائی غلط مفاہیم و مطالب بیان کر دیتا ہے۔ اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ کہ ہم اپنی انا کی تسکین کو، اپنی خود غرضی اور مطلبیت کو اور اپنی کامیابی کو (چاہے ہم نے کسی بھی ذریعہ سے حاصل کی ہو) خودی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی لیے ہمارا معاشرہ ہر معاملے کے اندر حقیقی کوشش اور مسائل کے حقیقی حل کی بجائے شارٹ کٹ، بے ایمانی اور وقت گزاری کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔ ہم جلد بازی کرتے ہیں۔ توکل نہیں رکھتے، آگے کی نہیں سوچتے۔ صرف وقتی فائدہ اور نقصان کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور یہی چیز بحیثیتِ کل ہمارے معاشرے کا ایک منفی تاثر پیدا کرتی ہے، منفی سوچ اور منفی رویے پروان چڑھاتی ہے!! اسی مشکل کو دیکھتے ہوئے اس سلسلہ میں ہم آج یہاں پہ اقبال کے مشہور زمانہ شعر کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

تو شعر کے اندر آپ کو تین بنیادی تصورات نظر آتے ہیں۔

1۔ خودی 2۔ تقدیر 3۔ رضا

خودی

خودی اقبال کا بنیادی نظریہ، فلسفہ اور تحریک ہے۔ ان کی تمام تعلیمات کا محور و مرکز ہے۔ اور اسی کو اقبال نے مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تجویز کیا ہے۔

تو خودی کا جو مطلب آپ کو آج تک معلوم ہے وہ یہ ہے۔ کہ خود شناسی، اپنے آپ سے واقفیت، اپنی طاقتوں اور کمزوریوں کا ادراک، اپنی عادات اور رویوں کو اپنانے اور بدلنے کا اختیار، عزتِ نفس، خودداری۔ اور بھی آپ کی نفسیاتی، جسمانی اور روحانی شخصیت میں جو کچھ ہے اس کا تجزیہ اور واقفیت!!

نہیں، اس کا مطلب "انا" نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں۔ انا، تکبر اور غصہ، اور اس جیسے اور جذبات مجبوری اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں مگر خودی ان سب کو اپنے بس میں اپنے قابو میں کرنے کا نام ہے۔ یہاں تک آپ اسے "انفرادی خودی" بھی کہہ سکتے ہیں۔

مگر ٹھہرئیے! یہاں تک تو بات عام فہم ہے اور بہت سے اور لوگوں نے بھی ایسے بات کی ہے، جیسے فرائڈ کا تحلیلِ نفسی کا نظریہ۔ اور شخصیت و تربیت کے حوالے سے اور بھی بہت سے مفکرین کے نظریات موجود ہیں۔۔

ہاں جی، اقبال کا نظریہ اس لیے منفرد ہے۔ کہ یہ ایک تحریک ہے، ایک تبدیلی ہے اور اس کا ایک اجتماعی یا سماجی پہلو بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ اقبال نے اسے ایک نظامِ حیات اور نظامِ معاشرت کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ اپنے وقت میں اقبال نے ہمیشہ "صوفی اور ملاں" کو اپنی زد پہ رکھا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو اپنی تعلیمات سے بے عمل بنا دیتے ہیں۔ ثواب و عذاب تک سوچ کو محدود کر دیتے ہیں۔ تحریک نہیں دیتے، بے عملی اور ترک دنیا کی طرف لے کے جاتے ہیں۔ تو مدرسے اور خانقاہ کے متبادل نظام کے طور پہ نظامِ خودی کو متعارف کرایا ہے۔ اور یہ وہ نظام ہے جس میں ہر انسان (کوئی خاص نہیں، کوئی بھی ہو سکتا ہے) اپنے مقصد کو، مطلب کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ سوچتا ہے، اپنی زندگی پر غور و فکر کرتا ہے۔ وجود اور ذات کے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے۔ اور اس سارے سوچنے، جاننے اور پہچاننے کے عمل میں وہ اپنے معاشرے میں ہی رہتا ہے، وہی زندگی گزارتا ہے جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔ یعنی تارک الدنیا نہیں ہوتا، غافل نہیں ہوتا، محدود نہیں ہوتا ( ثواب و عذاب، پیری، مریدی اور خود غرضی و دنیا داری میں)، بلکہ اپنی لا محدود صلاحیتوں سے واقف ہو کر اپنی زندگی کے مقصد کو بخوبی سر انجام دیتا ہے۔ اس میں وہ دین بھی سیکھتا ہے، خدا کو بھی پہچانتا ہے، کائنات کے رازوں سے پردہ بھی اٹھاتا ہے، انسانیت بھی سیکھتا یے اور دنیا میں بھی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ دنیاوی کاموں کو دوسروں کے لیے نہیں چھوڑ دیتا (جیسے کہ ہو رہا ہے کہ مسلمان یا تو صرف ثواب و عذاب کے چکر میں ہیں یا پھر دنیا داری میں کہ خود کو اور دوسروں کو بھی دھوکہ فریب دے کر دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں)۔

تو اگر دریا کو کوزے میں بند کریں تو خودی کا مطلب ہے، جاگ جانا، اپنے آپ کو، اپنے زمانے کو پہچاننا، خدا کو پہچاننا۔ اپنی لامحدود (یعنی اپنی ذات کے اندر کی) طاقت سے اپنے کردار کو نبھانا جس کے لیے اس کو دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ اور پھر اس کے بعد دوسروں کو اپنی بیداری سے تحریک دینا۔ تو یہ نظامِ معاشرت ہے جسے خودی کہتے ہیں۔

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

تو آبجو اسے اگر سمجھا تو چارہ نہیں

تقدیر

تقدیر کا تصور بھی بہت اہم ہے اور اسی کی ہی غلط تشریح نے اقبال کو خودی کا فلسفہ دینے پہ مجبور بھی کیا۔ تقدیر کا مطلب ہے۔ کہ قدرت نے ہر چیز کا اندازہ اور حد مقرر کر دی ہے اور یہی اس کی تقدیر ہے۔ اب کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں ہیں اور کچھ نہیں ہیں (ظاہری طور پر)۔ اب اس تصور کو غلط طور پہ اس طرح بیان کردیا گیا کہ جب سب کچھ طے ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کچھ کرنے کی۔"بس اللہ اللہ کریں۔ دنیا داری چھوڑ دیں"۔ جو قسمت میں ہوگا مل ہی جائے گا"، وغیرہ وغیرہ۔ یہی غفلت اور خود کی بے خبری اور بے قدری مسلمانوں کے زوال کی وجہ ہے آج بھی۔

حالانکہ کچھ کرنا یا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ اور ہمارا یہ اختیار محدود بھی نہیں ہے۔ ہمارا ارادہ، عزم، ہمت سب کچھ کروا سکتا ہے۔ تو تقدیر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے اور تقدیر کا مطلب یہاں پہ یہ ہوا کہ وہ اندازہ، وہ کام، وہ مقصد، وہ اختیار جو آپ کو دیا گیا تھا، جو صلاحیتیں آپ کو دی گئی تھیں وہی آپ کا اندازہ اور حد ہیں، کیا آپ نے انھیں استعمال کیا یا نہیں، چھوٹے سے چھوٹا کام اور بڑے سے بڑا کام کیسے سرانجام دیا۔

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں

نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سرمہ سا کیا ہے!!

رضا

رضا کا مطلب عام طور پر مرضی اور خواہش کی معنوں میں لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہی اس شعر کے مطلب کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اور لمبی لمبی چھوڑی جاتی ہیں جس کا اقبال کے نظریات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ جب کہ رضا کا مطلب یہاں پہ ہوگا "آمادگی"۔ دیکھیں جب پہلی شرط پوری ہوگئی کہ خودی بیدار ہوچکی، مقصد پہچانا جا چکا، مقام و مرتبہ کا ادراک ہو چکا، خود قدری، خود عزتی حاصل ہو چکی، عمل کا جذبہ بیدار ہو چکا تو اس وقت آپ آمادہ ہوتے ہیں آگے بڑھنے کے لیے۔ آپ مثبت سوچتے ہیں۔ شکر گزاری اور قناعت کو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں اور آپ کی شخصیت میں توازن آ چکا ہوتا ہے۔ اس وقت قدرت خود آپ کو راستہ بھی دکھاتی ہے اور آپ کا خیال بھی رکھتی ہے کیوں کہ آپ اب غافل نہیں رہے آپ جڑ چکے ہیں، مقصد کے ساتھ، کائنات کے ساتھ، خدا کے ساتھ۔ تو آگے جو کچھ بھی ہونے والا ہے خدا اس کے لیے آپ کی رضا مندی، آپ کی آمادگی کا انتظار کرتا ہے۔ پھر آپ جیسا سوچتے ہیں ویسا ہوتا جاتا ہے کیوں کہ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے، وہ تو ہر جگہ، ہر وقت حاضر و ناظر ہے، کلام کرتا ہے دل کے راستے سے براہِ راست اور مختلف نشانیوں کی شکل میں بالواسطہ۔ بس دیر آپ کی طرف سےہوتی ہے اسے پہچاننےمیں۔ قدرت اسی وقت نوازتی ہے جب ہم اس کے اہل ہوتے ہیں۔ اور آپ کی واقفیت اور آگہی ہی آپ کا سرمایہ ہے اس سارے سفر و مرحلے میں !!

ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈُوب جا تُو بھی

کہ اس جنگاہ سے بن کے میں تیغِ بے نیام آیا

Check Also

Nat House Mein Jashn Aur Abid Raza Kotla Ki Khamoshi

By Gul Bakhshalvi