Umrao Jan Ada Fikri Tanazur Mein (2)
امراؤ جان ادا فکری تناظر میں (2)
عدالت کا یہ عالم تھا کہ جھوٹا دعویٰ کیا جاتا لیکن مقدمہ اس سلیقے سے بنایا جاتا کہ نجات کی کوئی صورت نہ ہوتی۔ بطور گواہ ایسے مولوی صاحبان پیش کیے جاتے جن کی صورت سے کسی کو کذب و دروغ کا شبہ تک نہ ہوتا اور حاکم کو مجبوراً اُنہیں کے حق میں فیصلہ دینا پڑتا۔
رسوا معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے خیال کو قاری پر ناصحانہ انداز میں ٹھونستے نہیں، بلکہ اسے فنی قدروں کا تابع بنا دیتے ہیں۔ مقصد اور فن کی یہ گھلاوٹ اس ناول کو عظمت عطا کرتی ہے۔ قصے کے دوران کبھی اپنی زبانی اور کبھی کرداروں کے عمل سے انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کی وضاحت کر دی ہے اور جو باتیں رہ گئی ہیں انھیں " اختتامیہ " کے تحت قصے کے آخر میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے نظریۂ حیات نے کسی مقام پر بھی نہ پلاٹ کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کی ہے اور نہ کرداروں کو اپنے رنگ میں رنگا ہے۔ ہر کردار کے فطری نقوش اپنی انفرادی خصوصیات سے روشن ہیں۔
ناول کا بیشتر حصہ ایک طرح کی یاد آوری کے عمل پر محیط ہے۔ یہ ایک دستاویز کی شکل بھی رکھتا ہے اور مکالمے کے عنصر سے بھی یکسر خالی نہیں ہے۔ ناول میں بیشتر واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ جب امراؤ اپنے حالات گذشتہ اور واقعات پارینہ کے منتشر اجزاء کو سمیٹ کر ان پر ایک فیصلہ کن نظر ڈالتی ہے، بعض اخلاقی ضابطوں اور تعلیمات سے اپنے سروکار کو ظاہر کرتی ہے اور اپنا حتمی محاکمہ بھی سناتی ہے۔ اس طرح ناول کے عمل کے دوران، جسے ایک داستان کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جگہ جگہ منفرد اشعار اور پوری پوری غزلوں کو اس میں کھپایا گیا ہے، جس کی وجہ سے ناول میں ایک طرح کے شعوری التزام و انصرام اور ایک نوع کی ترصیع کا پتا چلتا ہے اور یہ راز بھی کھلتا ہے کہ اس خاص دور میں، جس کی اس ناول میں نقش گری کی ہوئی ہے اور ہمارے ثقافتی مزاج اور خمیر میں شاعری کا کس درجہ عمل دخل رہا ہے، المختصر یہ کہا جا سکتا ہے اور یہ کہنا شاید کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو کہ یہ ایک بہت ہی ادبی قسم کا ناول ہے اور اس پر خاصی کاوش کی گئی ہے۔
داستان کی ہیروئن اور اس کی دنیا اور اصل ایک کائنات اصغر ہے، جس پر ہم پورے معاشرے اور تہذیب کو قیاس کر سکتے ہیں۔ اس ناول میں سنسنی خیز حالات کا بھی خاصا عمل دخل نظر آتا ہے جیسے شروع ہی میں امراؤ جان کا دلاور خاں کے ہاتھوں اغوا کیا جانا، سلطان صاحب کا خانم کے بالا خانے پر ایک خاں کو طمانچہ مار کر گھائل کرنا، پرانے دشمنوں کا بات بات پر جنگ و جدل پر آمادہ ہو جانا، تلواروں کا طیش میں آ کر میانوں سے باہر نکالنا، زنانِ بازاری میں کسی کا میلے ٹھیلے میں سے اٹھوا لینا وغیرہ وغیرہ، یہ سب ایک طرح سے ان پڑھ عمل کی مثالیں ہیں اور ماقبل تہذیب برتاؤ کی عکاسی کرتی ہے اور ان سے ایک طرح کے میلوڈرامے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ان مقامات پر قاری سانس روکے اس امر کا منتظر رہتا یے کہ یہ سب کب ختم ہو گا کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول میں بہت سے آئینے جڑے ہوئے ہیں، جن کے توسط سے طرح طرح کے مواقع اور کرداروں کے باہمی تعامل کا انعکاس سامنے لایا گیا ہے۔
اس ناول میں مرزا رسوا کا مقصد محض امراؤ جان کے المیے کو بے نقاب کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی معاشرت کا عکس اتارنا بھی ہے جو انتشار کے دہانے پر کھڑی ہے۔ امراؤ جان ادا نے خود اس امر کی صراحت کی ہے کہ:
"اگر دلاور خاں اپنے جذبۂ انتقام کی تسکین کے در پے نہ ہوتا، اور وہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلتی اور ان تمام آفاتِ ارضی و سماوی کا شکار نہ بنتی، جن سے اسے سابقہ پڑا تو شاید اس کا یہ انجام نہ ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس باب میں بخت و اتفاق کو بہت دخل ہے۔ میری خرابی کا سبب دلاور خاں کی شرارت تھی نہ وہ مجھے اٹھا لاتا اور نہ اتفاق سے خانم کے ہاتھ فروخت ہوتی۔ نہ میرا یہ لکھا پورا ہوتا، جن امور کی بُرائی میں اب مجھے کوئی شبہ نہیں رہا۔ "
اردو ناول نگاری کی تاریخ میں "امراؤ جان ادا" کو بلاشبہ ایک انفرادی امتیاز حاصل ہے۔ اس کی تکنیک کا ایک پہلو یہ ہے کہ جن یادوں کی باز آفرینی اور جن واقعات کی تہوں اور پرتوں کو کھولنے پر یہ مشتمل ہے، وہ مستقیم سلسلہ واریت کے تابع نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک طرح کے عدم تسلسل یعنی Discontinuity کا اصول کار فرما ہے۔ یہاں بہت سی تصویریں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھ دی گئی ہیں، جن میں مشابہت اور تضاد دو تحائف، دونوں عناصر بیک وقت ابھارے گئے ہیں۔
"امراؤ جان ادا" اردو فکشن کی تاریخ کا روشن مینار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی جیسے سخت گیر ناقد کو بھی اعلانِ عام کرنا پڑا کہ" اردو میں جو کوئی بھی ناول نگاری کرے اس کے لیے سب سے پہلے فرض ہے کہ "امراؤ جان ادا " کو پڑھے اور اس کے فن کا اثر سیکھے"
الغرض "امراؤ جان ادا " تکمیل فن کی خوبصورت مثال ہے۔
اس ناول میں مرزا ہادی رسوا نے انتہائی خوبصورت پیرائے میں فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک خواندہ و جہاں دیدہ طوائف کی زبانی لکھنؤی تہذیب اور معاشرہ کے انحطاط و زوال کی کہانی پیش کی ہے۔ ناول کا مرکزی قصہ فطری انداز میں رونما ہوتا ہے اور ارتقاء کی مختلف منازل طے کرتا ہوا منطقی نتیجہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ ضمنی واقعات پلاٹ کی راہ میں رخنہ انداز نہیں ہوتے بلکہ کسی نہ کسی کردار کی سیرت کے کسی خاص پہلو یا معاشرہ کے کسی خاص نکتہ کو منور و اجاگر کرتے ہیں۔
گوہر مرزا کی گل چینی، اجڈ خاں صاحب کی بدزبانی، خانم کے ہاتھوں نواب چھبن کی ذلالت اور ستر سالہ مولوی صاحب کا نیم کے درخت پر چڑھنا، جیسے واقعات کی شمولیت غیر ضروری یا فنی تقاضوں کے منافی نہیں۔ دراصل مرزا رسوا نے ان واقعات سے گوہر مرزا، امراؤ جان، خان صاحب، خانم، نواب چھبّن، بسم اللہ جان اور مولوی صاحب کی سیرت سازی کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ ناول کے اسٹیج پر ہماری ملاقات متعدد چھوٹے بڑے کرداروں سے ہوتی ہے لیکن ہم ان ضمنی کرداروں کو نہیں بھولتے جو برق کی مانند محض ایک جھلک دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اسے مرزا رسوا کی سیرت سازی کا اعجاز تصور کیا جائے گا کہ ناول کا مرکزی کردار (امراؤ جان) ادب کا لافانی کردار بن گیا۔ اس کے مکالمے سیرت ساز ہیں۔
مرزا رسوا کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ نوابین اودھ ہوں یا طوائفیں، گنوار، لٹیرے، ڈاکو ہوں یا ماما، نوکرانی یا شاگرد پیشہ، مرزا بڑی آسانی کے ساتھ انھیں منفرد و مخصوص الفاظ الاٹ کرتے ہیں۔ جس کے سبب کرداروں کی انفرادیت کو صدمہ نہیں پہنچتا ہے۔ معقول منظر نگاری اور واقعات کی خوبصورت جزئیات نگاری ناول کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ امراؤ جان کے خوبصورت، دلکش اسلوبِ بیان کے سبب ہی ہم طویل ذہنی مسافت طے کر لیتے ہیں۔ اس ناول کا شمار اردو فکشن کے شاہکاروں میں ہوتا رہے گا۔