1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Surkh Bheriya (1)

Surkh Bheriya (1)

سرخ بھیڑیا (1)

آزادی پور گاؤں ایسی جگہ پر تھا کہ اس کے آس پاس مزید کوئی شہر یا دیہات موجود نہیں تھا۔ وہاں کے باسیوں کی روزی روٹی کھیتی باڑی سے پوری ہوتی تھی۔ خوش قسمتی سے گاؤں کی پچھلی طرف دو میل کے فاصلے پر ایک ریلوے اسٹیشن موجود تھا۔ گاؤں کے اکثر جوان دو میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے وہاں مسافروں کو پانی مہیا کرتے اور اس کی مزدوری وصول کرتے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں تھا۔

پورے گاؤں کے لوگوں میں اتفاق تھا اور وہ سارے کام باہم مل جل کر کر لیتے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شامل ہوتے اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آتے۔ گاؤں کی دائیں جانب ایک نہر تھی اور اسی نہر کے کنارے گاؤں کا سب سے پہلا گھر شاہ زور خان کا تھا۔ شاہ زور کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ سکول جیسی سہولت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے تینوں بہن بھائی سارا دن کھیل کود میں گزار دیتے۔ روکھا سوکھا کھا کے سو جاتے اور کبھی کبھار اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں چلے جاتے۔

ان کے کھیتوں سے کچھ ہی دور ایک جنگل تھا۔ جنگل میں بہت خطرناک جانور تھے اس لیے کوئی بھی انسانی وجود اس طرف نہیں جاتا تھا۔ شاہ زور خان کے بیٹے معصوم خان کو سرخ بھیڑیا بے حد پسند تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے باپ سے فرمائش کرتا کہ اسے سرخ بھڑیے کا بچہ لا کر دے۔ وہ اپنے بیٹے کی اس خطرناک خواہش کو کبھی بھی پورا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے باپ سے ناراض ہو جاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ ایک رات وہ اسی ضد میں پوری رات نہیں سویا اس کے باپ نے ٹھان لی کہ وہ ایک دو دن میں اسے بھیڑیے کا بچہ لا کر دے گا۔

ایک دوپہر معصوم خان سویا ہوا تھا اور اس کے باپ نے اس کی چار پائی کے ساتھ سرخ بھیڑیے کا بچہ لا کر باندھ دیا۔ وہ اٹھا اور اس کی پہلی نظر جب بھیڑیے کے بچے پر پڑی تو اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے چومے یا گلے لگائے۔ اس کا رنگ اس قدر سرخ اور شفاف تھا کہ وہ اسے چومے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے اس کی رسی کھولی اور اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا۔ آج اس نے اپنی ماں سے دو روٹیوں کی فرمائش کی تھی۔ اس نے ایک روٹی اور آدھا شکر ملا گھی بھیڑیے کے بچے کو کھلایا اور ہمیشہ کی طرح ایک روٹی خود کھائی۔

اس کی دونوں بہنیں بھی اس کے ساتھ مانوس ہو گئیں۔ وہ اسے اپنے حصے کا دودھ بھی پلاتا رہا اور ہر طرح سے اس کی خوراک کا خیال رکھا۔ ہفتے میں ایک دو بار اسے گوشت بھی کھلاتا۔ اس کے پاس سرخ بھیڑیے کا بچہ ہونے کی وجہ سے اس کے دوستوں کی تعداد میں بھی حیران کن اضافہ ہو چکا تھا۔ سبھی دوست نہر پر اکٹھے ہوتے اور اس کے ساتھ کھیلتے۔ اب بھیڑیے کا بچہ آہستہ آہستہ جوانی میں قدم رکھ رہا تھااور اس کے سرخ رنگ میں نکھار آ رہا رتھا۔

بھیڑیا کبھی کبھار گھر سے نکل جاتا اور محلے کے کتوں کے ساتھ آوارہ گردی کر کے واپس گھر آجاتا۔ اس دوران اس کے عادات واطوار میں نمایاں تبدیلی رونما ہو چکی تھی بلکہ اس نے بھونکنا بھی سیکھ لیا۔ وہ اکثر بچوں اور بڑوں کو کاٹنے کی نیت سے ان کے پیچھے بھاگتا لیکن مالک کے بلانے پر واپس آجاتا۔ پورے گاؤں میں اس کی وحشت پھیل چکی تھی۔

لوگ بڑے محتاط ہوچکے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے دیتے نہ ہی اس طرف کھیلنے جانے دیتے۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے دروازوں کو تالے لگا لیتے اوردیواروں پر کانٹے دار لکڑیاں رکھ دیتے۔ بھیڑیااچانک رات کو نکلتا اور گاؤں کی بھیڑ بکریوں اور بھینسوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتا۔ خوف و ہراس میں مزید اضافہ ہوتا گیا اب لوگوں کے جانور بھی محفوظ نہیں تھے۔

شاہ زور خان کی دس ایکڑ گندم بھی اسی بھیڑیے نے اجاڑ دی۔ وہ لوگوں کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچانے لگ گیا تھا۔ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے لوگوں کی جان کے ساتھ ساتھ اب ان کا مال بھی محفوظ نہیں تھا۔ بہرحال شاہ زور خان نے بھیڑیے کو باندھ دیا۔ اب وہ چوبیس گھنٹے بندھا رہتا اور معصوم خان اس سے کھیلتا بھی اور اسے دودھ بھی پلاتا۔ سرخ بھیڑیا بندھ کر رہنا پسند نہیں کرتا۔ ایک رات اس نے رسی تڑوائی اور دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا۔

اب گاؤں والے امن محسوس کررہے تھے لیکن ایک خوف بھی ان پر مسلط تھا کہ بھیڑیا کسی بھی وقت گاؤں کا رخ کر سکتا ہے اور ہمارے بچوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر سبھی لوگ چوکنے ہو گئے اور وہ اپنا انتظام کر کے سوتے۔ ایک صبح ایک بچے کی خون میں نہائی ہو ئی نعش ملی اور ایک بچہ غائب تھا۔ نعش سے زیادہ خوف و ہراس گم شدہ بچے کی وجہ سے پھیل گیا اور لوگ اپنے بچوں کو لے کر بےحد افسردہ اور مضطرب تھے۔ پہلے لوگوں کی فصلیں اجڑتی تھیں اب ان کے بچے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ سبھی گاؤں والے پریشان تھے۔ وہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھےاس مصیبت سے کیسے جان چھڑوائی جاسکے۔

ایک دن گاؤں کے سبھی لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور سب نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ہر ایک کی رائے دوسرے سے مختلف تھی۔ کوئی کہتا گھروں کی دیواروں کو اونچا کر دیا جائے۔ کوئی کہتا بھیڑیے کو دبوچنے کے لیے شکاری کتوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس دن ہر خواص و عام سے رائے لی گئی اور اسے احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ لوگوں کے بچے غائب ہو رہے تھے اور انہیں اپنے بچوں کی فکر تھی کہ پتا نہیں وہ کس حال میں ہوں گے اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہو گا۔ وہ زندہ بھی ہوں گے یا مر گئے ہوں گے؟

آخر کار اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ گاؤں میں پہرہ شروع کیا جائے۔ ہر گھر سے ایک فرد پہرہ دے گا۔ ہر شخص اپنی بندوق ساتھ رکھے گا۔ گاؤں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چار چار بندے لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کے باہر ایک آدمی پہرہ دے گا۔ پہرہ شروع ہوا تو کچھ دن بڑے سکون سے گزر گئے، کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا اور اس دوران کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہوا۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب گاؤں میں امن بحال ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پہرہ جاری رکھا جائے گا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ گاؤں کے چودھری کا چھوٹا بیٹا غائب ہو گیا۔ اتنے سخت پہرے کے باوجود بچے کا غائب ہونا سب کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ گاؤں کی ہر گلی اور ہر گھر کے باہر لوگ پہرے پر موجود ہوں اور کوئی بچہ غائب ہو جائے؟ سرخ بھیڑیے کا بچہ جتنی دیر گاؤں میں رہا وہ گاؤں کے ہر گھر سے اور تمام گلیوں سے مانوس تھا۔ اس نے پورا گاؤں دیکھ رکھا تھا۔

Check Also

Khoobsurti Ke Kaarobar Ka Badsurat Chehra

By Asifa Ambreen Qazi