Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Sunehri Robot (2)

Sunehri Robot (2)

سنہری روبوٹ (2)

حاکم اجڑی ہوئی فصل کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوری فصل کو اوپر سے کاٹ دیا تھا اور فصل کے تمام سٹے غائب تھے۔ ہرطرف ہو کا عالم تھا لیکن حاکم اپنے دل کی دھڑکن کا بلند و بالا شور سن سکنے کے قابل تھا۔ اس کے دل میں طوفان اٹھ رہے تھے۔ دل ڈوب رہا تھا لیکن اس کے اختیار میں صبر اور خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اپنی بنائی ہوئی شے پر آپ کا کوئی اختیار باقی نہ رہے تو آپ رولا نہیں ڈالتے بلکہ گہری چپ سادھ لیتے ہیں۔ حاکم بہت کچھ بولنا چاہتا تھا بہت کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے پتا تھا کہ سرِدست وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے دل میں ہزاروں گلے تھے لاکھوں شکائتیں تھیں۔ اس کی کیفیت بالکل ایسی تھی!

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے

مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو

سامراج کے دوست ہمارے دشمن ہیں

انہی سے آنسو آہیں آنگن آنگن ہیں

انہی سے قتل عام ہوا آشاؤں کا

انہی سے ویراں امیدوں کا گلشن ہے

بھوک ننگ سب دین انہی کی ہے لوگو

بھول کے بھی مت ان سے عرض حال کرو

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو

اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

وہ اس کے سنہری لباس سے بھی خوفزدہ ہو جاتا۔ اس لباس میں عجیب سی دہشت تھی۔ ہاتھ میں مضبوط چھڑی، چہرے پر ہروقت غصہ، بڑی بڑی خوفناک سی آنکھیں اور مضبوط کندھے حاکم کو اس کے سامنے محکوم بنا دیتے۔

وہ تب بھی کچھ نہ کر سکا تھا جب اس نے اس کی بیوی کی عزت پہ ہاتھ ڈالا۔ وہ اس وقت بھی کچھ نہ کرسکا تھا جب اس نے اس کے سامنے اس کی دو سالہ بچی کو چیر پھاڑ دیا۔ وہ تب بھی بے بس تھا جب اس نے اس کے سارے مویشی چیر پھاڑ کر رکھ دیے اور کئی دنوں تک وہ اس کے سامنے انہیں کھاتا رہا۔ وہ اب کی بار بھی مایوس تھا۔ وہ مرجانا چاہتا تھالیکن اپنے بیوی بچوں کے لیے اسے جینا پڑرہا تھا۔ اب اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ اسے دوبارہ اس حال میں آنے کے لیے پورا ایک سال انتظار کرنا بہت دشوار لگ رہا تھا۔

گھر کی حفاظت کے بدلے میں وہ اسے ساری جمع پونجی پہلے ہی دے چکا تھا۔ وہ دبے پاؤں وہاں سے واپس چلا گیا۔ اسے بچوں کی روٹی اور جوتے کپڑوں کی فکر مسلسل کھائے جا رہی تھی۔ بیوی بچوں کو گھر چھوڑنے کے بعد وہ پھر سے درختوں کی آغوش میں جا بیٹھا۔ آسمان کی رنگت سرخ ہو رہی تھی۔ چاروں طرف سے گرم ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔ درخت بالکل خاموش تھے۔ ہرطرف پتوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھےلیکن درخت انہیں کھانے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ اس نے غور سے دیکھا تو سبھی درخت زخمائے ہوئے تھے۔ وہ درد سے چور چور تھے اور ان کے زخموں سے خون نکل رہا تھا۔ تمام درخت مرنے کے قریب تھے لیکن اس نے انہیں وہی خون (جو ان کے زخموں سے بہہ رہا تھا) پلا کر بچانے کی کوشش کی۔ دریا بھی خون سے بھرا ہوا تھا لیکن اس بار خون گندا نہیں تھا۔ درختوں سے نکلنے والا خون سیدھا دریا میں گر رہا تھا۔

اب دریا میں موجود انسانی اعضاء آپس میں (خودکار طریقے سے) جڑے جا رہے تھے اور ایک بار پھر سے انسانی روپ دھار رہے تھے۔ مری ہوئی سب مچھلیاں زندہ ہو چکی تھیں۔ وہ مچھلیاں دوبارہ سے تعمیر ہوتی ہوئی انسانی پونگ کو اچھال اچھال کر دریا سے مسلسل باہر پھینک رہی تھیں۔ دوبارہ زندہ ہونے والے سبھی لوگ درختوں کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ پرندوں نے گیت گانے شروع کر دیے۔

حاکم ان لوگوں کے ساتھ ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ کر آپ بیتی سنارہا تھا۔ اس نے انہیں بتایا کہ میں نے ایک روبوٹ بنایا تھا۔ اس کا مقصد تو گھر کی حفاظت کروانا تھا لیکن میرا گھر بار سب کچھ اس کے دائرہ قوت میں آچکا ہے۔ وہ کئی بار میرے گھر کی چھت کو بھی اڑا چکا ہے۔ میرے بیوی بچوں پر حملہ کر چکا ہے۔ اس دفعہ تو اس نے میری ساری فصل (گندم) اجاڑ دی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا خود موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ حاکم کا گھر اور بیوی بچے سب کچھ ختم ہوگیا۔ ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ درخت پھر سے زخمی ہو گئے۔ ہر طرف بارود کے دھوئیں اٹھ رہے تھے۔ حاکم اور سبھی لوگ گھر سے کچھ دور ہونے کی وجہ سے ہلاک ہونے سے تو بچ گئے لیکن شدید مضروب ہو گئے۔ گھر کی چاروں اطراف میں جو حفاظتی باڑ لگی تھی روبوٹ نے اسے اکھاڑ پھینکا۔ ایک ہی گھر سے درجن کے قریب جنازے اٹھائے گئے، انہیں سیاہ کفن میں چھپایا گیا تھا۔ رات کی تاریکی میں ان کی قبریں کھود کر انہیں دفن کیا گیا۔

ہر ایک قبر پر ایک کتبہ لگایا گیا۔ ہر کتبے پر ایک جملہ لکھا ہوا تھا کہ "یہ قدرتی موت مرے ہیں"۔ روبوٹ وہاں سے جا چکا تھا اور جاتے وقت سبھی مال و دولت اپنے ساتھ لے گیا۔ اس نے اپنے جیسے ہزاروں روبوٹ تیار کر لیے تھے۔ سب کی رنگت سنہری تھی۔ اس وقت قبرستان میں دو لوگ کسی خاص مقصد کے لیے آئے تھے۔ ایک کا چہرہ زرد تھا جبکہ دوسرے کا سرخ۔ زرد چہرے والا شخص قبرستان میں آنے جانے والے ہر شخص پر نظر رکھتا۔ سرخ چہرے والا شخص قبروں کی چھان بین کرتا کہ یہ خاص کتبے کیوں لگائے گئے ہیں۔

درختوں پر گیت گانے والے پرندے اب بین کرتے رہتے ہیں۔ ایک کالے رنگ کا کبوتر سرخ چہرے والے شخص کے پاس آتا اور اس کے کان میں کچھ کہہ کر اڑ جاتا۔ زرد چہرے والے شخص نے یہ تاڑ لیا تھا کہ رات کے پچھلے پہر سنہری روبوٹ ایک چھوٹے لشکر کی شکل میں قبرستان میں آتے ہیں اور کچھ ہی دیر بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ حاکم کے بنائے ہوئے روبوٹ نے تمام کالے کبوتروں کو مار دیا۔

زرد اور سرخ چہرے والے دونوں شخص بھی قبرستان سے اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ درختوں نے پھر سے پتے کھانے شروع کر دیے۔ دریا میں دوبارہ بارود کی بُو والی لاشیں بہتی ہوئی نظر آنے لگ گئی ہیں۔ حاکم نے ایک قبر کھودی اور اس میں لیٹ گیا۔ اپنی قبر پر اس نے ایک خوبصورت کتبہ اپنے ہاتھوں سے سجا دیا۔ اس کتبے پر لکھی تحریر بڑی حیران کن تھی!

خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے

اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے

لہو پیو گے کہاں تک ہمارا دھنوانو

بڑھاؤ اپنی دکاں سیم و زر کے دیوانو

نشاں کہیں نہ رہے گا تمہارا شیطانو

ہمیں یقیں ہے کہ انسان اس کو پیارا ہے

خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے

اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے

Check Also

Balay

By Mubashir Ali Zaidi