Misr Ka Qadeem Adab
مصر کا قدیم ادب
سائنس آنکھوں سے دیکھتی ہے، عملی طور پر مشاہدہ اور تجربہ کرتی ہے، اس کے بعد وہ یقینی صورت حال میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس"ادب" نظریات اور تخیل پر بھی بھروسہ کر لیتا ہے۔ ان دونوں باتوں کا نچوڑ یہی ہے کہ ادب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
اگر ایک سائنس کا سٹوڈنٹ تخیلاتی دنیا میں چھلانگ لگا دے تو وہاں وہ خیالات و نظریات کو غلط ثابت کرتا ہے، ایک ایسی دنیا آباد کر لیتا ہے جہاں وہم، شبہ، قیاس اور تقلید جیسے عناصر ناپید ہو جاتے ہیں۔ محمد عمران نے بی۔ ایس۔ سی کی، ایم۔ اے اردو کیا، پھر ایم فل اور آج کل اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر رہے ہیں۔
ان کا ایم فل کا مقالہ کتابی صورت میں بنام "مصر کا قدیم ادب" (مرزا ابن حنیف کی تحریروں کے تناظر میں) فکشن ہاؤس لاہور سے چھپ چکا ہے۔ عنوان دیکھنے سے کچھ پل کے لیے تو یوں لگا کہ میرے ہاتھ میں ایک انتہائی خشک متن ہے۔ لیکن کتاب کی فہرست اور ابواب بندی نے کافی متاثر کیا۔ کتاب ہذا چار ابواب پر مشتمل ایک تاریخی قصہ ہے، مصر کو دریافت کرنے کے لیے انتہائی عرق ریزی سے لکھا گیا ہے۔ پہلے باب میں مرزا ابن حنیف (مرزا ظریف بیگ) کے احوال و آثار، ان کی سوانح، شخصیت، تصانیف، غیر مطبوعہ تحریروں، طبع شدہ مضامین اور قدیم تراجم وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔
اگلے باب میں"مصر کی تاریخ"، تہذیب و تمدن، معاشرت، فراعین مصر، وہاں کی مذہبی صورتِ حال، ادبی تاریخ، آرٹ اور فنِ تعمیر، فن مصوری اور مصر کی موجودہ صورتِ حال کو لکھا گیا ہے۔ تیسرے باب میں"مصر کے قدیم ادب" پر بات کی گئی ہے اور آخری باب میں مرزا صاحب کو ایک ماہر آثار قدیمہ اور مصری محقق و مورخ ثابت کیا گیا ہے۔
تحقیق ایک خون نچوڑنے والا کام ہے۔ کٹھن مرحلہ اور الجھا ہوا دھاگہ ہے۔ موضوع کا انتخاب کرنا، خاکہ تیار کرنا، داخلی اور خارجی کتابوں کی ورق گردانی کرنا، تسوید اور مقالے کا دفاع بلا شبہ ایک تھکا دینے والا کام ہوتا ہے۔ ان ساری مشکلات کے بعد صاحبِ کتاب بن جانا بھی شخصیت میں نکھار اور اعتماد پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ اس مقالے کو پڑھنے کے بعد جس بات نے راقم کو ذاتی طور پر متاثر کیا وہ اس کا آسان اور غیر روائتی اسلوب ہے۔
لائبریریاں کتابوں اور رسالوں حتیٰ کہ اخبارات سے بھری پڑی ہیں۔ کچھ مقالات کا مطالعہ کرکے دیکھیں تو لگتا ہے کہ آپ ایک ہی مصنف کی ڈھیر ساری کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ بنیادی وجہ کاپی کیا ہوا اسلوب اور لفاظی ہے۔ لیکن کتاب ہذا میں مصنف نے الفاظ کے چناؤ، منظر نگاری، ادبی چٹخارے یا کسی تماشے سے کام نہیں لیا، بلکہ قاری کے لیے آسانی پیدا کرتے ہوئے انتہائی سادہ الفاظ اور انداز اپنایا ہے۔ تاریخی ادب کی تخلیق سائنسی اصولوں پر کی گئی ہے۔ حواشی و حوالہ جات کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔ مصنف نے مستند کتابیات کا سہارا لے کر اس مشکل کام کو آسان کرکے پیش کیا ہے۔
متن سر سے گزرنے والا نہیں ہے بلکہ ذہن نشین ہو جانے کے قابل ہے۔ یہی کسی بھی کتاب کی کامیابی کے لیے کافی ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد کچھ معلومات حاصل ہوں اور یہاں وافر مقدار میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ محمد عمران نے تاریخ جیسے خشک اور مشکل موضوع کے ساتھ دلیرانہ انصاف کیا ہے۔ میری نظر میں کتب ادبی زبان کی وجہ سے توجہ کا محور نہیں بنتیں بلکہ معنی و مفاہیم کی کامیاب ترسیل انہیں قارئین کے دلوں میں گھرکرنے کے قابل بناتی ہیں۔ عمومی طور پر ایسی تاریخی کتابیں اور اساطیری مواد طوالت کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ لیکن منصف نے کتاب ہذا کو اختصار اور جامعیت بخشی ہے، اس سے ان کی قابلیت، تحقیقی اپروچ کھل کر سامنے آئی ہے۔
وہ ایک مضبوط ڈکشن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ جملہ سازی کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ انتہائی کم صفحات میں جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے تحقیقی خلاء کو پر کیا ہے۔ تحریر میں ربط بھی ہے اور دم خم بھی۔ کہیں کوئی جھول نظر نہیں آیا۔ ایک ایک تفصیل کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے درج کیا گیا ہے۔ وہ لکھنے کا فن جانتے ہیں اور بلاشبہ ان کی یہ کتاب اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوگی۔ محمد عمران کا ادبی ذوق اس نظم کی طرح ہے!
نیل کی تعظیم
خوش آمدید، اے نیل!
تو دھرتی سے پھوٹتا ہے۔
اور مصر کو زندگی بخشنے کے لیے آتا ہے۔
جیسے دن کے وقت اندھیرا۔