Manto Waris Alvi Ki Nazar Main (4)
منٹو وارث علوی کی نظر میں (4)
افسانے:
منٹو کی افسانہ نگاری کے حوالے سے وارث علوی کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں: "منٹو کو کہانی کہنے کا گر آتا تھا۔ اس کا افسانہ اپنی نستعلیق ساخت سے فوراََ پہچانا جاتا ہے۔ منٹو کی افسانہ نگاری کا آغاز سیاسی افسانوں سے ہوتا ہے۔" (منٹو ایک مطالعہ)
اس کا پہلا افسانہ جو اس کے پہلے مجموعہ "شرارے" میں شامل ہے امرت سر میں انگریزوں کی گولی سے زخمی ہونے والے ایک نوجوان پر ہے۔"دیوانہ شاعر" جلیان والا باغ پر ہے اور بہت ہی جذباتی افسانہ ہے۔ ان ابتدائی افسانوں کے علاوہ سیاسی موضوعات پر "نیا قانون"، "1919ء کی ایک بات"، "سورج کے لیے"اور "یزید" منٹو کے زیادہ پختہ کار افسانے ہیں۔"یزید" اچھے ڈھنگ سے لکھا گیا ہے لیکن اطمینان بخش ثابت نہیں ہوتا۔ دشمن نے نہروں کا پانی بند کر دیا ہے۔ کریم داد بیٹے کا نام یزید رکھتا ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کیا حرکت ہے تو وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔ اس نے دریا کا پانی بند کیا تھا یہ کھولے گا، بات کچھ بنتی نہیں۔
"نیا قانون" منٹو کا بہت ہی مشہور افسانہ ہے۔ یہ خیال کہ۔۔ نیا قانون کے آتے ہی ہندوستان آزاد ہو گااور انگریزوں سے نجات ملے گی منگو کوچوان کے اعصاب پر سوار ہو جاتا ہے۔ منگو ایک سیدھا سادہ بے وقوف اور ان پڑھ آدمی ہے جو باتوں کا دھنی ہے۔ اس کے کردار کا یہ پہلو کہ وہ عجلت پسند ہے اور کوئی بھی خیال ہو اس پر خبط کی طرح چھا جاتا ہے۔ منٹو نے بڑی نفسیاتی دروں بینی سے ابھارا ہے۔
"1919ء کی بات" بہت ہی اچھا افسانہ ہے۔ منٹو کے لئے یہ بات بہت ہی اہم تھی کہ انقلاب فرانس میں پہلی گولی ایک مکھیائی کو لگی تھی اور امرت سر میں گوروں کی گولی ہلاک ہونے والا ایک طوائف کا لڑکا تھا۔ اس کی دو بہنیں شہر کی مشہور طوائفیں تھیں۔ بھائی کے شہید ہونے کے دو روز بعد انہیں گوروں نے اپنے سامنے ناچنے پر مجبور کیا۔ افسانہ کا یہی وہ دلچسپ موڑ ہےجہاں اس واقعہ کا بیان کرنے والا ٹرین کا مسافر حب الوطنی کے جذبات کے تحت دروغ گوئی سے کام لیتا ہے اور بتاتا ہے ہے کہ دونوں بہنوں نے الف ننگے ہو کر انگریزوں کے منہ پر تھوکنا چاہا اور انگریزوں نے دونوں کو گولی سے داغ دیا۔ جب واحد متکلم کہتا ہے کہ یہ انجام خود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔ تو مسافر اسٹیشن پر اترتے ہوئے بڑی تلخی سے کہتا ہے "ہاں انہوں نے اپنے شہید بھائی کے نام پر بٹہ لگایا" اور چلا جاتا ہے۔
"عشق حقیقی" میں کہانی کی تعمیر اس ڈھنگ سے کی گئی ہے کہ لڑکا اور لڑکی دور دور رہیں اور ایک دوسرے کے قریب نہ آنے پائیں۔ چنانچہ لڑکا لڑکی کی پہلی ملاقات سنیما کے اندھیرے میں ہوتی ہے۔ لڑکا اپنے قریب بیٹھی لڑکی کو کن انکھیوں سے دیکھتا ہے اور اس کے حسن کا فریفتہ ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا پیچھا کرتا ہے اور لڑکی اپنے مکان کی کھڑکی سے اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ نامہ و پیام ہوتا ہے اور آخرکار لڑکی اس کے ساتھ بھاگ جانے پر رضا مند ہوتی ہے۔ دونوں بھاگ کر ایک شہر میں جاتے ہیں۔ ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیتے ہیں۔ لڑکا لڑکی کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے۔ اس کا خوبصورت چہرہ ہاتھ میں لے کر بالائی ہونٹ کے تل پر اپنا بوسہ ثبت کرتا ہے۔ لڑکی نہ نہ کرتی ہے۔ اس کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ دانتوں میں گوشت خورہ ہے۔ مسوڑے گہرے نیلے رنگ کے ہیں۔ گلے ہوئے سڑانڈ کا بھبکا لڑکے کی ناک میں گھستا ہے۔ اسے ایک دھکا سا لگتا ہے۔"ابھی آیا" کہہ کر وہ باہر جاتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ یہاں رومانی محبت کا جذبہ جسم کی حدود سے بلند نہیں ہو سکا۔ محبت کے جذبہ کی پیش کش میں منٹو پوری سچائی اور خلوص سے کام لیتا ہے اور کہیں یہ ثابت نہیں ہونے دیتا کہ یہ جذبہ محض ایک وقتی لگاؤ سے زیادہ معتبر نہیں۔
خوبصورتی خودبین وخود آرا ہوتی ہے۔ ذات کے آئینہ خانہ اور پندار کے صنم کدے میں محبوس۔ نفسیاتی تناؤ اور کھینچاؤ میں قید روح کا پرندہ آزاد فضاؤں میں اونچی اڑان بھرنا چاہتا ہے۔ عموما یہ بات کہی جاتی ہے کہ منٹو کی طوائف میں عورت اور عورت میں ماں کا روپ ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن سب افسانوں کے لیے نہیں۔ مثلاََ خولہ بالا کہانیوں میں اؤل الذکر پانچ کہانیوں میں منٹو طوائف میں عورت کو دیکھتا ہے لیکن لازمی طور پر اس کے ماں کے روپ کو نہیں۔
منٹو کی حقیقت نگاری طوائف کی تصویر کشی میں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔"کالی شلوار"، "پہچان"، "ہتک"، خوشیا"اور "دس روپے" کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اپنی افسانہ نگاری کی ابتدائی منزلوں میں ہی اس نے وہ نظر پیدا کر لی تھی جو تنگ و تاریک کھولی میں بیٹھی مکھیائی کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ طوائف کو اتنی غیر جذباتی اور اتنی دردمندانہ نظر سے دیکھنے والا افسانہ نگار عالمی ادب میں شاید مشکل سے نظر آئےگا۔ عورت طوائف بنتی ہے تو اس کے اندر کی عورت مر نہیں جاتی بلکہ اپنے انسانی تقاضوں اور رویوں کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ طوائف پر اپنے افسانوں میں منٹو کا سروکار یہی رہا ہے کہ قحبہ خانے کی گھنونی فضاء میں وہ ان نھلکیوں کو دیکھ لے جو طوائف کی بنیادی انسانیت اور عورت پن کی دلیل ہے۔
طوائف کی زندگی کے اکیلے پن کا جو احساس منٹو کے اس افسانے میں ابھرتا ہے وہ زیادہ شدید اور ہولناک صورت میں "ہتک" میں نظر آتا ہے۔ طوائف پر لکھے گئے افسانوں میں اس اکیلے پن کا بیان کسی اور افسانہ نگار کے یہاں مجھے نظر نہیں آتا۔ دن پہاڑ اور راتیں اجاڑ بن رہی ہیں۔ منٹو نے سلطانہ کی تنہائی اور کسم پرسی کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ قاری کے لبوں سے دعا نکل جاتی ہے کہ اے میرے معبود کچھ کر اس عورت کے لئے۔ گاہک بھیج بیچاری کے لیے!
قاری کے منہ سے دعا اس لئے نکلتی ہے کہ افسانہ کی پوری فضا اور اس کی مرکزی تھیم کا تعلق گہری مذہبیت سے ہے۔ سلطانہ کو کالی شلوار چاہیئے محرم کے لے۔ سلطانہ کو گہری عقیدت ہے خواجہ نظام الدین سے۔ خدا بخش فوٹو گرافر جو اسے انبالہ سے دہلی لایا تھا فقیروں کا معتقد ہے۔ کچھ کرتا کراتا نہیں بس دلاسہ دیتا رہتا ہےکہ اللہ نے چاہا تو سب اچھا ہو جائے گا۔"ہتک" طوائف کے موضوع پر منٹو کا سب سے مشہور افسانہ ہے۔ پھر افسانہ کی ساخت بھی بڑی فنکارانہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک چھوٹے سے افسانے میں کتنا مواد بھر دیا گیا ہے۔ ہر چیز موقعہ محل کے مطابق اتنی آسانی سے وقوع پذیر ہوتی ہے کہ پلاٹ میں پیچیدگی اور مصنوعی پن کی بجائے کہانی میں سادگی پیدا ہو جاتی ہے۔
"خوشیا" طوائف نہیں بلکہ طوائف کے ایک دلال کی کہانی ہے جس کا نام خوشیا ہے۔ یہ افسانہ نفسیاتی حقیقت نگاری کا بہت ہی اچھا نمونہ ہے۔ کالے تمباکو والا پان چباتے ہوئے خوشیا سلیگن چبوترے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ ساچنے اور پان چبانے دونوں کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے اور دونوں کو منٹو بڑے عمدہ طریقے سے بیان کرتا ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ خوشیا نے کانتا کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آتی ہے کہ کون ہے؟ جواب ملا "میں خوشیا" دروازہ کھلا، خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب دروازہ اندر سے بند ہوا تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا کانتا لگ بھک برہنہ تھی۔ وہ نہانے جا رہی تھی۔ خوشیا اسی واقعہ کے متعلق سوچ رہا تھا۔ کانتا کی اس حرکت سے خوشیا کے مردانہ وقار کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے ارمانوں کا خون ہوا ہے۔
"جانکی" میں عورت کی مامتا کا روپ خدمت گزاری اور ایثار نفسی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ جانکی پیشہ ور طوائف نہیں۔ ممکن ہے پشاور میں رہی ہو لیکن وہاں بھی وہ عزیز صاحب کی منظور نظر تھی جنہوں نے اسے بمبئی فلموں میں کام تلاش کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ یہاں بھی وہ عزیز کی صحت کے لئے فکر مند رہتی ہے اور بے چینی سے اس کے خطوط کا انتظار کرتی ہے۔ لیکن عزیز سے لگاؤ اسے بمبئی میں سعید سے جسمانی تعلق سے جوڑنے سے روک نہیں پا رہا تھا۔
منٹو کے افسانوں کا ایک اہم موضوع دل کی فیاضی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ فیاض دل اخلاقی طور پر برگزیدہ اور سماجی طور پر برتر ہستیوں ہی میں ملے۔"نطفہ" جو بہت ہی جامع اور دلچسپ افسانہ ہے کا صادق بھی بابو گوپی ناتھ کے قسم کا آدمی ہے گو دونوں میں بہت فرق ہے افسانہ کا آغاز ہی دونوں کے تقابل سے ہوتا ہے۔ ایک تھا وہ طوائف سے شادی کر لیتا ہے۔ اس طوائف کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ چھ مہینے بعد جانےصادق کے دل میں کیا آئی کہ اس نے طوائف کو طلاق دے دی اور اس سے کہا کہ تمہارا اصل مقام یہ گھر نہیں۔۔ ہیرا منڈی ہے۔۔ جاؤ اس لڑکی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔ اس کو شریف بنا کر میں تم لوگوں کے کاروبار کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا۔ جاؤ! خدا میرے نطفے کے بھاگ اچھے کرے۔ لیکن دیکھو اسے نصیحت دیتی رہنا کہ کسی سے شادی کی غلطی نہ کرے۔ یہ غلط چیز ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ صادق خود کاروباری آدمی ہے اور وہ دوسروں کے کاروبار اجاڑ کر اپنی خوشی نہیں خریدنا چاہتا۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کہانی کی اور بابو گوپی ناتھ کی اخلاقیات الگ الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں ٹھیک ہیں۔
"خالی بوتلیں خالی ڈبے" میں انشائیہ کا لطف زیادہ ہے۔ تجرد پسند لوگوں کی مختلف چیزوں کو جمع کرنے کی عادت کا ذکر منٹو نے بہت دلچسپ پیرایہ میں کیا ہے۔ جو افسانہ جنم لیتا ہے۔ اس کا یہ نفسیاتی پہلو بھی غور طلب ہے کہ بیوی کے انتخاب میں جذباتی رویے سے کام کرتے ہیں وہ غیر شعوری طور پر مردوں کی دوسری چیزوں کی پسند اور ان کی عادتوں میں جھلکتے ہیں۔ خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کرنے والا رام سروپ ایک ایسی دبلی پتلی عورت سے شادی کرتا ہے جو بنارسی ساڑھی میں کاغذ میں لپٹی ہوئی خالی بوتل ہی نظر آتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ دنیا میں ہماری ہی پسند کام کرتی تو نہ جانے کتنی عورتیں بن بیاہی رہ جاتیں۔ لیکن فطرت جیولوجیکل جوڑے بنانے میں بڑی فراغ ثابت ہوئی ہے۔
"لائسنس " اس سماجی نظام پر بہت گہرا طنز ہےجو عورت کو پیشہ کرانے کا لائسنس دیتا ہے۔ لیکن تانگہ چلانے کا نہیں۔ افسانہ بہت خوبصورتی سے لکھا گیا ہے۔ لیکن طنز اپنی قیمت نفسیاتی حقیقت نگاری سے وصول کرتا ہے۔ دراصل ایک شریف عورت کیلئے پیشہ کرنے کا فیصلہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ بس افسانہ میں اس جانکاہی کا عکس نہیں ہے۔ اس کی جتنی جدوجہد ہے خارجی ہے۔ لوگ بے ایمانیاں کرتے ہیں۔ خود تانگہ چلاتی ہے تو ممانعت ہوتی ہے۔ مجبور ہو کر پیشہ کا لائسنس مانگتی ہے۔
"مجید کا ماضی" افسانہ پڑھ کر لگتا ہے اس میں کیا ہے اس طرح کا افسانہ تو ہر کوئی لکھ سکتا ہے۔ لیکن لکھتا صرف منٹو ہی ہے۔ مجید جس نے خوب دولت کمائی ہے اور بڑی عیش و عشرت کی زندگی گزارتا ہے۔ ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب وہ قلاش تھا اور خوش۔ عام طور پر ایسے افسانے کردار کے احساسات کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن انہیں قاری تک پہنچا نہیں سکتے۔