Manto Waris Alvi Ki Nazar Main (3)
منٹو وارث علوی کی نظر میں (3)
خاکے:
منٹو اردو کا باکمال خاکہ نویس تھا۔"گنجے فرشتے "اور" لاؤڈ سپیکر" اس کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔ ان میں کل ملا کر بائیس ایسی شخصیتوں پر خاکے ہیں جن کا تعلق فلم، ریڈیو صحافت اور ادب کی دنیاؤں سے تھا۔ ہماری تہذیبی زندگی کے ان شعبوں میں چوتھی اور پانچویں دہائیوں میں بڑی سرگرمیاں تھیں اور انہوں نے ان زمانوں میں بڑی دلچسپ اور ہنر مند شخصیات پیدا کیں۔
یہ خاکے سب کے سب دلچسپ ہیں۔ واقعات اور کرداروں کے بیان میں کہیں تکرار کا عیب پیدا نہیں ہوا حالانکہ ایک ہی شعبہ میں کام کرنے والوں کو یکساں واقعات کا سامنا ہوتا ہےاور بہت سے تجربات آپس میں مشترک ہوتے ہیں۔ سوائے دو تین خاکوں کے جن میں واقعات کی ترتیب میں تھوڑی بہت گنجلک پیدا ہوگئی ہے اور بیان میں جھول آ گیا ہے۔ تمام خاکے حسن ترتیب بیان اور سلیقہ مندانہ درویست کے لئے بے مثال نمونے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خاکے خاکے ہی رہتے ہیں افسانے نہیں بنتے لیکن فارم کی تکمیل میں وہ افسانہ کا فنکارانہ حسن پیدا کر لیتے ہیں۔
شاعروں میں آپ میر اجی۔۔۔ کا خاکہ نفسیاتی ژوف بینی کا نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خاکہ میں منٹو نے نفسیاتی مطالعہ کا حق ادا کر دیا ہے۔ پورا خاکہ ایک ماہر نفسیات کے قلم کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کے خاکہ میں منٹو نے اختر کی رومانی نظموں کی کیفیت آفرینی کا نہایت ہی دل نشین بیان کیا ہے۔ وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ جب اختر شیرانی کی نظموں سے فضاؤں پر مدہوشی کا عالم طاری ہوتا تھا۔ اختر شیرانی کی شراب نوشی کا بیان ایک جونیئر شراب نوش کی زبانی عجب گل کھلاتا ہے۔
صحافیوں میں یاری علیگ، چراغ حسن حسرت اور دیوان سنگھ مفتوں کے خاکے کے لئے مثال ہیں۔ اس شخصیتوں کو ان کی بشری کمزوریوں کے ساتھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ نہ تو ان سے محبت کے جذبات میں کمی آتی ہے نہ ان کا قد کم ہو جاتا ہے۔ یاری انقلاب پسند بھی تھے اور پرلے درجہ کے بزدل بھی تھے۔ منٹو نے اس تضاد کو طنزوتمسخر کے ساتھ نہیں بلکہ ایک گہری محبت اور قبلی لگاؤ کے ساتھ پیش کیا۔
سب سے اچھے خاکے پری چہرہ نسیم، اشوک کمار اور پارودیوی کے ہیں۔ نور جہاں کا خاکہ بھی دلچسپ ہے اور اس میں خود منٹو کی زندگی کے متعلق بعض دلچسپ معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ شیام کے خاکے کی ممتاز شیریں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تعریف کر بیٹھی ہیں۔ میری نظر میں تو یہ خاکہ بہت جذباتی ہے۔ عصمت چغتائی کا خاکہ بھی بہت ہی غیر اطمینان بخش ہے۔ البتہ آغا حشر پر منٹو کا خاکہ حشر کی شخصیت کا جیتا جاگتا مرقع پیش کرتا ہے۔ خاکہ نویسی میں منٹو کا طریقہ کار کیا رہا ہے اسے جاننے کے لئے میں اسی خاکے کا ذرا تفصیلی تعارف پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آغا حشر سے دو ملاقاتیں۔۔ حسن ترتیب، حسن بیان، بذلہ سنجی، ظرافت اور مشاہدے کی ژوف نگاہی کے سبب مرقع نگاری کے اعلیٰ ترین نمونوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
یہاں بھی رفیق غزنوی کی طرح آغا حشر سے ملاقات کی تمنا کیسے بڑھتی رہی اور ملاقات کے مواقع کیسے ہاتھوں سے نکلتے رہے، یعنی نفسیاتی سطح پر خواہش تجسس محرومی اور پھر تکمیل آرزو کی کیفیتوں کے بیان میں صحیح فنکاری ظاہر ہو رہی ہے۔ حالانکہ ان تفاصیل کو غیر ضروری کہہ کر نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منٹو ایسا نہیں کرتا۔ منٹو کے مرقعوں کی ایک امتیازی صفت یہ بھی ہے کہ ان مرقعوں میں جس پر خاکہ لکھا جا رہا ہے وہی اہم نہیں ہوتا بلکہ خود خاکہ لکھنے والا بھی اہم ہوتا ہے۔ ہم مصنف کے نقطہ نظر سے دوسری شخصیت کو دیکھتے ہیں۔ لہذا مصنف کے ذہنی اور جذباتی رویے بھی ان مرقعوں میں خاصا اہم رول ادا کرتے ہیں۔ آغا حشر کے خاکے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف دو ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ لیکن آغا حشر کی شخصیت کے تمام پہلو اس میں سما گئے ہیں۔
لیکن منٹو، منٹو ہے۔ اس کی حقیقت شناس نظریں ہر حقیقت کو اس کی اصلیت میں دیکھ لیتی ہیں۔ سب سے پہلے تو ملاقات کا حال دیکھیئے: "باہر صحن میں کرسیوں پر کچھ آدمی بیٹھے تھے۔ ایک کونے میں تخت پر پنڈت محسن بیٹھے گڑگڑی پی رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک عجیب و غریب آدمی میری نگاہوں سے ٹکرایا۔ چیختے ہوئے لال رنگ کی چمکدار ساٹن کا لاچا، دو گھوڑے کی بوسکی کی کالر والی سفید قمیض کمر پر گہرے نیلے رنگ کا پھندقوں والا ازار بند، بڑی بڑی بے ہنگم آنکھیں، میں نے سوچا کڑہ گھنیاں کا کوئی پیر ہو گا۔ لیکن فوراََ ہی اس کو کسی نے آغا صاحب کہہ کر مخاطب کیا، مجھے دھکا سا لگا۔
آگے چل کر منٹو لکھتا ہے: میں کئی دنوں تک اس ملاقات پر غور کرتا رہا۔ آغا صاحب عجیب و غریب ہزار پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے ان کے چند ڈرامے پڑھے ہیں۔ جو اغلاط سے پر تھے اور نہایت ہی ادنیٰ کاغذ پر چھپے ہوئے تھے۔ جہاں جہاں کامیڈی آئی تھی وہاں پھکڑ پن ملتا تھا۔ ڈرامائی مقاموں پر مکالمہ بہت ہی زور دار تھا۔ بعض اشعار سوقیانہ تھے بعض نہایت لطیف۔ بات یہ ہے کہ ان ڈراموں کا موضوع طوائف تھا جن میں آغا صاحب نے اس کے وجود کو سوسائٹی کے حق میں زہر ثابت کیا تھا۔۔ اور آغا صاحب عمر کے اس آخری حصے میں شراب چھوڑ کر ایک طوائف سے بہت ہی پر جوش قسم کا عشق فرما رہے تھے۔
آغا صاحب پر دوسرے لوگون نے بھی اسکیچ لکھے ہیں۔ لگتا ہے وہ ایک فوق الانسان کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ بلا توش بھی تھے اور صاف باطن بھی تھے۔ شاہد باز بھی تھے اور مذہب اسلام کے عاشق بھی تھے۔ مغلشات کے بادشاہ بھی تھے اور لسان العسر بھی تھے۔ منٹو کے خاکے کی خوبی یہ ہے کہ یہ متضاد صفات فوق الانسان کے خاکے میں رنگ نہیں بھرتیں بلکہ ان کی شخصیت ان کے جتنا قد ہے اس کے مطابق تواشتی ہیں۔ منٹو کے اسکیچ میں عقیدت مندکی پرستش نہیں بلکہ حق و بین حق شناسی نظر کی مانوسیت اور انسیت ہے۔