Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Dukhyare (2)

Dukhyare (2)

دکھیارے (2)

دکھیارے ناول میں راوی کی یادیں غمگین ہیں۔ والد نے ساتھ چھوڑ دیا، ماں مر گئی، بڑے بھیا بھی مر گئے۔ منجھلے بھیا کی یادیں بھی خوشگوار نہیں ہیں، وہ بھی بے مروت اور بے حس رہا ہے۔ پھر کچھ محبوبائیں بھی تھیں، کچھ سے رشتہ نہ جڑ سکا اور کچھ مر گئیں۔ غربت نے سر چھپانے کے لیے جگہ بھی نہ دی، ایک گھر تھا وہ بھی چھن گیا۔ یہ ہیں ماضی کی یادیں، جن سے راوی قاری کو واقف کروانا چاہتا ہے۔ راوی نے بڑے خوبصورت انداز میں ماضی کو بیان کیا ہے۔ ماضی کو بیان کرنا بھی ایک فن ہے۔

مذکورہ ناول میں ہر ایک خصوصیت ایسی ہی ہے، جیسی درج بالا اقتباس میں بیان کی گئی ہے۔ راوی ہر ایک کے سامنے اپنی کہانی بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ حکیم، مریض، قیصر خالہ، میاں الماس، شمامہ اور سائرہ کے سامنے ہر دفعہ کہانی کلی طور پر بیان کی جاتی ہے۔ بچپن کا ہر واقع بیان کیا جاتا ہے، ماں اور بڑے بھیا کے مرنے کی پوری داستان سنائی جاتی ہے۔ یہ کہانی اتنی دردناک ہے، کہ سب سننے والوں کو راوی سے بے تحاشا ہمدردی ہو جاتی ہے۔

خطوط کی تکنیک کا بھی ناول میں جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔ بڑے بھیا ہر دفعہ ایک نیا خط چھوٹے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور ہر دفعہ اس میں کچھ حیران کن تحریر پڑھنے کو ملتی ہے۔ بڑے بھیا دَر دَر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن چھوٹے کے ساتھ اس کے گھر میں نہیں رہتے۔ دو چار دفعہ وہ چھوٹے کی فرمائش پر اس کے ساتھ اس کے گھر میں رات گزارنے آتے ہیں۔ چھوٹے کو سوتا چھوڑ کر وہ صبح جلدی چلے جاتے ہیں اور جاتے ہوئے ہر دفعہ ایک خط اس کے سرہانے چھوڑ جاتے ہیں۔ بڑے بھیا ذہنی خلل میں مبتلا ہیں۔ کبھی کبھی ان کا خلل بگڑ جاتا ہے ورنہ وہ ہوش و حواس میں ہوتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور آواز بہت شیریں ہے۔ وہ پڑھے لکھے ہیں، ہر دفعہ ایک خط چھوٹے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور ہر دفعہ کچھ نیا اور عجیب پڑھنے کو ملتا ہے۔ بڑے بھیا ماں کے لیے ایک بہت بڑا اور عمدہ گھر بنوانا چاہتے ہیں۔

لکھنو میں آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے دور میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ محل نما گھر اور بڑی بڑی حویلیاں تعمیر کروائی جاتی تھیں۔ زوال لکھنؤ کے بعد سب محل نما گھر انگریز نے گرا دیئے۔ ان کے خطوط میں بھی ماں کے لیے ایک بہت بڑا گھر تعمیر کروانے کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ بڑے بھیا نے موسیٰ باغ میں کوئی گھر بنوایا ہے اورنہ ہی وہ کوئی گھر یا حویلی بنوانے کے قابل ہیں۔ ان کو خیالی دنیا میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ ان کے خواب بہت بڑے ہیں۔ ان کا لاشعور انہیں جھنجھوڑتا ہے کہ ساری زندگی دکھوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ ماں نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ وہ کچھ کرتو نہیں سکتا لیکن اس کی نیت صاف ہے۔ وہ اب بھی ماں کے لیے ایک شاہی گھر بنوانے کا ارادہ رکھتا ہے، اور ایسے خط لکھ کر وہ خود کو تسلی دیتا ہے۔

راوی نے ذہنی خلل میں مبتلا، ایک ایسے شخص کا نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے کہ جسے کوئی بھی معاشرہ ایسی صورت حال میں قبول نہیں کرتا۔ پلاٹ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مذکورہ ناول کا پلاٹ بہت سادہ ہے۔ پورے قصے کے اندر پائے جانے والے حالات و واقعات باہم مربوط اور منظم ہیں۔ ناول میں بیان کیے گئے تمام واقعات راوی کی آپ بیتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان واقعات کو ترتیب دینے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیئے تھی۔ یقینی طور پر وہ واقعات کو ترتیب دینے اور منظم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پلاٹ انتہائی سادہ ہے۔ کہیں پر بھی قاری کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ شروع سے آخر تک پوری کہانی کو قاری جلدی سمجھنے میں کامیاب ہوتا جاتا ہے۔ راوی بہت آہستگی اور روانی کے ساتھ کہانی بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ پورے قصے میں ایک ہی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ واقعات میں تسلسل ہے، تمام خیالات و واقعات مربوط ہیں، کڑی سے کڑی ملی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسلوب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مذکورہ ناول کا اسلوب جاندار اور قابل داد ہے۔ ہر لکھاری کا اسلوب مختلف ہوتا ہے اور وہی اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ راوی کے اسلوب میں امام باڑوں، مسجدوں، درگاہوں، شیعہ سنی فسادات، پرندوں، درختوں اور ذاتی کہانی سنانے کا عنصر سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ بات سیدھی اور آسان کرتے ہیں۔ کہیں پر بھی ابہام یا قول محال نظر نہیں آتا ہے۔

بڑے بھیا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہے، وہ کبھی مسجد میں پناہ لیتے ہیں۔ کبھی کسی درگاہ میں چلے جاتے ہیں، کبھی امام باڑے کا رخ کرتے ہیں تو کبھی کسی گرجا گھر کو مسکن بنا لیتے ہیں۔ راوی کے تمام ناولوں اور افسانوں میں ان چیزوں کا ذکر ملتا ہے۔ لکھنؤ میں شیعیت کا صحیح پرچار آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے عہد میں ہوا۔ راوی نے ہمارے سامنے لکھنؤ کی جو تصویر رکھی ہے، وہ آخری فرمانروا واجد علی شاہ کے عہد کی ہے۔

راوی کو پرانی حویلیوں کے اجڑ جانے کا بھی غم ہے۔ وہ اس غم کو بھی اپنی فکر اور اسلوب میں جگہ دیتے ہیں۔ لکھنؤ بلند و بالا عمارتیں اور وسیع حویلیاں بنانے میں طاق رہا ہے۔ آصف الدولہ کے زمانے میں اس فن کو ترقی ملی۔ واجد علی شاہ نے بھی عمارتیں بنوانے پر توجہ دی۔ جب واجد علی شاہ کو معزول کرکے مٹیا برج بھیج دیا گیا، تو انگریزوں نے تمام شاہانہ عمارتوں کو مسمار کر دیا۔

راوی کی فکر اور اسلوب میں عمارتوں کےمسمار ہونے اور حویلیوں کے گر جانے کا غم بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو راوی نے لکھنؤ کا شہر آشوب لکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھنؤ کی بربادی پر ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھنؤ کے باسی ہیں اور کوئی باسی اپنے گھر، محلے یا وطن کی بربادی کو کیونکر برداشت کر سکتا ہے؟ لکھنؤ کی عمارتیں گرا دی گئیں اور درخت کاٹ دیے گئے۔ لکھنؤ پر زوال آیا تو عمارتوں کے علاوہ درخت بھی جڑوں سے کاٹ دیئے گئے۔ درخت کسی بھی جگہ کی خوبصورتی بڑھانے کے علاوہ اس کی آب و ہوا کو معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ واجد علی شاہ کو عمارتیں بنوانے کے علاوہ باغبانی کا بھی بے حد شوق تھا۔ انہوں نے باغات کی طرف بھی خاص توجہ دی۔

راوی کے اسلوب اور فکر میں درختوں سے پیار بھی موجود ہے۔ ان کی اکثر تحریروں میں تو درخت باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ راوی نے جس فکری پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ موجودہ معاشرے میں اب بھی موجود ہے۔ نئی بننے والی حکومت پچھلی حکومتوں کے تمام تر منصوبہ جات کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ واجد علی شاہ کے بعد لکھنؤ کا مکمل کنٹرول انگریزوں کے پاس تھا۔ انگریزوں نے تمام عمارتیں گرا دیں اور درخت کاٹ دیے۔ اس سے لکھنؤ کی تمام خوبصورتی خاک میں مل گئی۔ اس سے پہلے واجد علی شاہ نے بہت خوبصورت حویلیاں، محل اور لائبریریاں بنوائی تھیں۔

راوی یہاں لکھنؤ کی بربادی پر ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قاری کو یہی گمان ہوتا ہے، کہ فی الوقت وہ بھی لکھنؤ کی گلیوں میں کہیں موجود ہے۔ کہانی کے بیان کنندہ ذاکر(راوی) اس عہد کے لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات پر بھی غمگین نظر آتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ فسادات ہمیشہ ہی سر اٹھاتے رہے ہیں۔ وہ فسادات چاہے ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہوں، یا پھر شیعہ سنی فسادات ہوں۔

راوی بڑے بھیا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اچانک خبر ملتی ہے کہ فسادات زوروں پر ہیں۔ وہ کئی دن کسی اجنبی جگہ پر پناہ لیے رکھتے ہیں۔ البتہ دکھیارے ہر لحاظ سے ایک مکمل ناول ہے اور لکھنو کا شہر آشوبِ ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم کوئی سفر نامہ پڑھ رہے ہوں۔

Check Also

Indian Moseeqi

By Syed Mehdi Bukhari