Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Dukhyare (1)

Dukhyare (1)

دکھیارے (1)

اس ناول میں آپ بیتی کا عنصر موجود ہے۔ راوی کے بیانیے میں دو چیزیں قاری کو جا بجا نظر آتی ہیں۔ ایک تو راوی کی ہر تحریر میں ان کی آپ بیتی موجود ہوتی ہے، دوسری چیز لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہے۔ اس کہانی کا آغاز ہی راوی نے ماں اور بڑے بھیا کی موت سے کیا ہے۔ راوی یہاں پر اپنے حالات زندگی قاری کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ وہ اس قدر اکیلے ہو چکے ہیں کہ اپنا دکھ درد قاری کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں۔

وہ ابھی بہت چھوٹے تھے جب ان کی ماں اس دنیا کو چھوڑ گئیں۔ بڑے بھیا ذہنی خلل میں مبتلا تھے، وہ ساری زندگی اپنے ٹھکانے بدلتے رہے۔ اسی دوران وہ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے ٹک کراپنا علاج بھی نہیں کروایا، بالآخر وہ بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ منجھلے بھیا سے سب کو شکایت رہتی ہے، کیوں کہ اس نے کبھی بھی چھوٹے اور ماں کا ساتھ نہیں دیا۔ ماں اور بڑے بھیا کے مر جانے کے بعد راوی بالکل اکیلا رہ گیا ہے۔ وہ اپنے حزن و ملال میں قاری کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ دکھیارے حزن و ملال سے بھرپور کہانی ہے۔

راوی کے والد ان کی ماں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں کے لیے تین بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ماں نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سکول میں بچوں کو پڑھایا، ہر طرح کی محنت، مشقت کی۔ اپنا گھر ایک مہاجن کے ہاں رہن رکھ دیا، جسے کبھی نہ چھڑوایا جا سکا اور ایک خاندان اپنے گھر سے محروم ہوگیا۔ یہی وہ المیہ ہے جو کہانی کے بیان کنندہ (راوی) کے ذہن پر سوار ہے۔ ایسی صورت حال میں اکثر مرد کو ایک عورت ہی پناہ دیتی ہے۔ ایک عورت ہی مرد کے دکھ درد سمیٹتی اور بانٹتی ہے۔

راوی کو شمامہ کی پرکشش نسوانیت اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ شمامہ راوی کے پڑوس میں رہتی ہے۔ یہ وہی کردار ہے کہ جس کے گھر میں راوی کے بڑے بھیا اکثر پناہ لیتے تھے۔ ایک دن راوی بڑے بھیا سے ملنے شمامہ کے گھر جاتے ہیں۔ اسی دوران شمامہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ شمامہ خوبصورت جسم اور لب و لہجے کی مالک ہے۔ راوی اس کی اداؤں، ناز نخروں اور حسن سے متاثر ہوتے ہیں لیکن بہکتے نہیں۔

جدید اور معاصر ناول نگاروں نے اپنی تحریروں میں فحاشی اور عریانی کو جگہ دی ہے۔ دکھیارے ایسی فحاشی اور عریانی سے کوسوں دور ہے۔ اس میں جو محبت دکھائی گئی ہے وہ سراسر مشرقی ہے۔ مشرقی محبت کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ اس میں نہ تو محبوب بازاری ہوتے ہیں اور نہ ہی عاشق رذیل اور کمینے۔ مشرقی محبت میں محبوبہ ایک باپردہ کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔

راوی شمامہ کے گھر جاتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوبصورتی سے بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا کی چار دیواری سے باہر قدم نہیں رکھتے۔ کردار نگاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے، تو ناول کے چار مرکزی کرداروں کے علاوہ شمامہ، سائرہ، قیصر خالہ، میاں الماس اور حکیم صاحب ذیلی یا ثانوی کرداروں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انیس اشفاق نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ کرداروں کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ان کے منہ سے جملوں کی ادائیگی کرواتے ہیں۔ حکیم صاحب حکمت کے دائرے میں رہ کر بات کرتے ہیں۔ منجھلے بھیا جو کچھ ہی دیر کے لیے کہانی میں سامنے آتے ہیں، وہ بھی اپنے کردار کے مقصد پر پورا اترتے ہیں۔

مرکزی اور ثانوی کرداروں میں ایک موزوں تال میل ہے۔ ثانوی کردار مرکزی کرداروں کی مکمل مدد اور حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب سے اہم کردار بڑے بھیا کا ہے۔ بڑے بھیا کا کردار بلاشبہ ایک نہ بھولنے والا کردار ہے۔ اسے ہلکا سا ذہنی خلل ضرور ہےلیکن وہ پاگل نہیں۔ وہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔ ماں کے مرنے کے بعد وہ گھر چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد سے اس کا کوئی ایک مستقل ٹھکانہ نہیں ہے، وہ مسلسل ٹھکانے بدلتا رہتا ہے۔ کبھی مسجد میں رہنا شروع کر دیتا ہے تو کبھی مندر میں۔ کبھی چرچ میں چلا جاتا ہے تو کبھی کسی درگاہ پر۔ چھوٹے کی بہت زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بھیا کو اپنے ساتھ رکھے، لیکن بڑےبھیا زیادہ سے زیادہ ایک دوبار ہی چھوٹے کے گھر میں رہنے آتے ہیں۔ صبح اچانک اٹھ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے بھیا دونوں کو ماں کے مرنے کا غم ہے۔

چھوٹے مری ہوئی ماں کو یاد کرتے ہیں، جبکہ بڑے بھیا نے ابھی تک ماں کے مرنے کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ وہ ماں کو زندہ ہی تصور کرتے ہیں اور اکثر ماں سے ملاقات کی خبر بھی سناتے ہیں۔ راوی نے بہت عمدہ انداز میں بڑے بھیا کا نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے۔ راوی نے بڑے بھیا کی جذباتی کیفیت اور اس کی نفسیات کو کلی طور پر قاری کے سامنے بیان کیا ہے۔ وہ ذہنی طور پر ماں کے مر جانے کو تسلیم کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ ہر وقت ماں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جب کسی سے اس قدر شدید نفسیاتی لگاؤ ہو جائے، تو اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور باتیں بھی کی جا سکتی ہیں۔ بڑے بھیا اکثر چھوٹے کو بتاتے کہ میری آج ماں سے ملاقات ہوئی تھی۔

آج میرے اور ماں کے درمیان فلاں فلاں باتیں ہوئیں۔ منظر نگاری کسی بھی ناول کی جان ہوتی ہے۔ ایک اچھا منظر نگار کسی مردہ چیز کی منظر نگاری بھی اس انداز میں کرتا ہے، کہ وہ چیز قاری کے سامنے ایک جیتا جاگتا وجود لے کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ مذکورہ ناول میں منظر نگاری کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ البتہ راوی کہیں کہیں منظر نگاری کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے بیانیے میں آپ بیتی اور لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی شامل تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قاری کو اس المیے سے متعارف کروایا ہے، جو المیہ موجودہ دور میں ہر گھر کا المیہ ہے۔

کہانی پڑھنے کے بعد ہر قاری کو یہ محسوس ہوگا کہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے۔ راوی اپنے بیانیے کے ساتھ اس قدر سنجیدہ تھے، کہ وہ ایک عمدہ منظر نگاری کرتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی ساری طاقت کہانی سنانے پر مرکوز کیے رکھی۔ اچھے مکالمات اچھے کرداروں کی پہچان ہوتے ہیں۔ مکالمہ نگاری بھی ایک مشکل فن ہے۔ منہ سے نکلنے والے الفاظ آپ کی شخصیت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔

دکھیارے کے کرداروں کی طرح اس کے مکالمات بھی مناسب دکھائی دیتے ہیں۔ لہجہ ہمیشہ زبر دست رہا ہے۔ راوی ہر کردار کی حیثیت کے مطابق اس کے منہ سے الفاظ کی ادائیگی کرواتے ہیں۔ جادوئی حقیقت نگاری ایک بہت بڑا فن ہے۔ راوی نے قاری کو حیران کن طور پر جادوئی حقیقت نگاری سے واقف کروایا ہے۔ یہاں پر ایک ایسا المیہ سامنے آتا ہے جو قاری کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ماں مر گئی اور اپنی یادیں چھوڑ گئی۔ چھوٹے اور بڑے بھیا ماں کی انہی یادوں میں گم رہتے۔

دکھیارے میں افسانوی عناصر کی بجائے حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ قدوائی کے مطابق راوی کے بیانیے میں نہ تو افسانوی سوانح ہے اور نہ ہی تاریخی افسانہ۔ بلکہ ایک ایسی گہری اور پر سکون کہانی ہے کہ جس میں حالات و واقعات بڑی آہستگی سے رونما ہوتے ہیں، جو ہماری غیر واضح اور دھندلی زندگیوں کی بڑی دلفریب تصویر دکھاتے ہیں۔ بالکل راوی یہاں پر کوئی داستان سنانے نہیں اترے ہیں۔ وہ تو بڑی دھیمی رفتار کے ساتھ اپنی کہانی بیان کرتے جا رہے ہیں۔ اس کہانی میں قاری خود کو کہیں نہ کہیں موجود پاتا ہے، کیوں کہ یہ ایک عام کہانی ہے اور عام کہانیاں ہر گھر میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

راوی بڑی آہستگی کے ساتھ صاف اور سادہ انداز میں کہانی بیان کر رہا ہے۔ کہیں کوئی ابہام یا "قول محال" موجود نہیں ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک انگریزی ادب سے اردو ادب میں آئی، بلکہ پورا ناول ہی انگریزی ادب سے درآمد کیا گیا ہے۔ راوی کے اسلوب میں یہ تکنیک موجود ہے۔ فیلش بیک کا مطلب ہوتا ہے ماضی کی یادوں میں رہنا۔ ماضی کی یادیں خوفناک بھی ہو سکتی ہیں اور روح افزا بھی۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad