Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Defence Ki Tawaif (2)

Defence Ki Tawaif (2)

ڈیفینس کی طوائف (2)

اس نے گھر چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جائے گی۔ وہ بے سہارا تھی، اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر اس نے کچھ دن گزارے۔ ہر آتی جاتی نظر اس پر ٹھہر جاتی۔ وہ جوان تھی اور کافی خوبرو بھی۔ اس کا گندھا ہوا بدن اپنے اندر قدرتی مہک لیے ہوئے تھا۔ اس کی لمبی گردن کسی شفاف صراحی کی طرح معلوم ہوتی۔ اس کے چھلوں والے بال ہر طرف خوشبو بکھیرتے۔ وہ چلتی تو اس کے پورےپاؤں زمین پر پھیل جاتے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر پاؤں رکھتی اور اٹھاتی۔ اس کی بھاری پنڈلیاں دیکھ کر گمان ہوتا کہ وہ کسی کھاتے پیتے گھر کی سوغات ہے۔ اس کی آنکھیں دور سے سیاہ جبکہ نزدیک سے بھوری معلوم ہوتیں۔ اس کی چھاتیوں کے ابھار سے اس کی کم عمری ٹپکتی۔ ہاتھوں کی پوروں سے اندازہ ہوتا کہ کسی ماہر لکھاری نے اپنے ہاتھوں کی نفاست اور فن ان پر صرف کیا ہے۔ اس کے جسم کی خوبصورتی نے اس کے میلے کچیلے لباس کو بھی رنگین بنا رکھا تھا۔

بھیک مانگتے اسے احساس ہوتا کہ وہ ایک پڑھے لکھے خاندان سے ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ پڑھی لکھی ہے اسے کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لینی چاہیے۔ اس نے پرائیوٹ سکولوں کے چکر لگائے۔ اسے بہت جلد اس بات کا احساس ہوا کہ ملازمت کے عوض اس کی عزت باقی نہیں رہے گی۔ ہر جگہ اس سے رنگین مطالبات کیے جاتے۔ وہ کئی ایک فیکٹریوں میں بھی گئی۔ وہاں بھی اسےادراک ہوا کہ اس کا جسم نوچ لیا جائے گا۔ ایک پرائیویٹ ٹیلی فون آپریٹر کی نوکری اسے ملی۔ وہ ابھی چند ہی دن وہاں گئی تھی کہ مینیجر نے اسے ایک دن اکیلے دیکھ کر کمرے میں بند کر لیا۔ اس نے اتنی مزاحمت کی جتنی اس کی عزت کا دفاع کرنے کے لیے ضروری تھی۔

وہ وہاں سے بھاگنے میں بہرحال کامیاب ہوگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ بے حس ہو جائے۔ اس میں اچھے برے، صحیح اور غلط کی پہچان نہ رہے۔ وہ بھول جائے کہ وہ ایک خوبصورت جسم کی مالک ہے۔ وہ بھول جائے کہ وہ جاذب نظر ہے۔ بس اس کا پیٹ بھرتا رہے۔ وہ سوکھی روٹی اور پانی سے گزارا کرلے گی مگر بدن بیچ کر پیٹ میں ڈالے گئےتر نوالے اس کا معدہ باہر پھینک دے گا۔ اسے ہر مرد میں ایک وحشی بھیڑیا نظر آنے لگ گیا۔ اس کا تمام مردوں سے اعتماد اٹھنا شروع ہوگیا۔ سفید داڑھی والے بزرگ بھی اسے ناسور لگنے لگ گئے۔ اس نے بھیک سے جمع کیے ہوئے پیسوں سے سڑک کنارے کراکری کا سامان خرید کر رکھ لیا۔

اسے لگا کہ اب اس کی عزت محفوظ ہے۔ وہ اپنا کمائے گی اور بغیر کسی خوف کے کھائے گی۔ اس سے بھی اسے بھیک جتنی ہی آمدنی ہوتی۔ ہر آتا جاتا آوارہ مرد اسے خاص اشارے کرتا اور برائی کی دعوت دیتا۔ اسے بہت جلد اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ بیٹیاں اپنے والد اور بھائیوں کی سرپرستی میں ہی محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ان کے طاقتور بازو ہی ان کا دفاع کر سکتے ہیں۔ لیکن اب اس کے پاس کوئی رشتہ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ سب رشتوں سے آزاد ہو چکی تھی۔

اس نے دارالامان جانے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ وہاں مجبور اور لاچار لڑکیوں کو کھانا اور چھت فراہم کی جاتی ہے۔ بالآخر وہ خود ہی دارالامان چلی گئی۔ وہاں کی انچارج میڈم رخسانہ کسی خانم سے کم نہ تھی۔ اس نے بہت جلد کوششیں شروع کر دیں کہ اسے آوارہ کتوں کے سامنے پھینک دیا جائے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے دام بھی اچھے ملیں گے اور آوارہ کتوں کی بھی شہر میں کمی نہیں ہے۔ ایوان کے ایوان آوارہ کتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دارالامان انہی آوارہ کتوں کا مسکن بنے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی یہاں خود چل کر روٹی کھانے آتے ہیں تو کبھی روٹی ان کی دہلیز پر پہنچا دی جاتی ہے۔

خانم نما انچارج میڈم رخسانہ کو یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کے جال میں نہیں آئے گی۔ اس نے اسے ایک رات بے ہوش کرکے ایوان کے سب سے بڑے کتے کے سامنے پھینک دیا۔ چندہ نے صبح اٹھ کر دیکھا تو اس کے پورے بدن پر دانتوں کے نیلے نشان تھے۔ اس کے پورے جسم کو سگریٹ سےجلایا گیا تھا۔ اسے ٹھنڈا میٹھا بخار محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا بخار اسے زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے پورے جسم سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ کچھ دنوں میں طبیعت کی بحالی کے بعد وہ وہاں سے بھاگ نکلی۔

وہ اپنے ایک کزن مرزا عابد کے پاس چلی گئی۔ اس سے اس کی اچھی شناسائی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اسے پناہ ضرور دے گا۔ بہرحال اس نے چندہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ چندہ خوبصورت اور جوان تھی۔ وہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لینے کی صلاحیت سے مالامال تھی۔ مرزا عابدبھی اس کی طرف کھنچا چلا آیا۔ اس نے ایک رات اپنے تین دوستوں کے ہمراہ چندہ کو نوچ ڈالا۔ ایسا مسلسل ایک سے دو ماہ تک چلتا رہا۔ چندہ اب حاملہ ہوچکی تھی۔ وہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ متعلقہ پولیس اسٹیشن میں شکایت لے کر پہنچی لیکن چھوٹے تھانے دار نے اس کے حاملہ ہونے کے باوجود، شراب کے نشے میں دھت ہو کر اس سے لذت حاصل کی اور دھکے دے کر تھانے سے باہر نکال دیا۔

اس نے عدالت جانے کا ارادہ باندھا لیکن عدالت کے باہر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ اس روز اتوار تھا اور اتوار کو عدالت نہیں کھلے گی۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس نے اسے یتیم خانے میں چھوڑ دیا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا بچہ بھی پڑھ لکھ کر کسی بڑے ادارے میں نوکری حاصل کرے۔ چندہ نے یتیم خانے میں یہ وصیت لکھ کر دی کہ اس کے بچے کو بیورو کریٹ بنایا جائے۔ وہ کم از کم اسے وکیل یا جج بنانا چاہتی تھی۔ وہ وہاں سے نکلی اور اب اس میں بے باکی پیدا ہو چکی تھی۔ اس کی شرم و حیا کی دیواریں گر چکی تھیں۔ اس نے سرکاری عمارتوں کے بالکل عقب میں ایک شاندار کوٹھا کھول لیا۔ اسے پیٹ بھرنے کے لیے عزت کی روٹی چاہیے تھی۔ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اب وہ اپنے شایان شان نہیں سمجھتی تھی۔

سرکاری عمارتوں کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے اس کے کوٹھے کی قدر میں بہت اضافہ ہوا۔ وہ بہت جلد اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ یاد ماضی سے جان چھڑانے کے لیے اس نے مختلف قسم کےمہنگے نشے کرنے شروع کر دیے تھے۔ اس کی صحت مسلسل بگڑتی جا رہی تھی۔ اس کی خوبصورتی بھی ختم ہوتی جارہی تھی۔ لہذا اس سے پھیلنے والی بیماریوں کے پیش نظر حفظ ماتقدم کے طور پر اس کے کوٹھے کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ اب وہ ایسے ہی سڑکوں پر نشے کی حالت میں ایک چلتی پھرتی لاش کی مانند نظر آتی۔

وہ انہی یادوں میں گم سڑک پر ٹھہر ٹھہر کر چل رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والے ایک ٹرک کی زد میں آگئی۔ ٹرک نے اسے بری طرح کچل دیا تھا۔ اس کے اردگرد لوگ جمع ہو چکے تھے۔ کوئی آگے بڑھ کر اسے سمیٹنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ سب افسردہ تھے کہ آج ایک حسین طوائف انہیں چھوڑ کر جا چکی ہے۔

Check Also

Bare Pani Phir Arahe Hain

By Zafar Iqbal Wattoo