Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Chikni Roti (2)

Chikni Roti (2)

چکنی روٹی (2)

چند کھلی ہوئی کھڑکیوں پر سفید رنگ کے کفن لہرا رہے تھے۔ ہر قبر کے دروازے پر ناگ پھنکار رہے تھے۔ ہر ناگ کے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ ان بلند و بالا اور عالی شان قبروں کو ایک وسیع اور دبیز دیوار نے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ ہر قبر کے ساتھ ایک برگد کا درخت لگا ہوا تھا ان درختوں پر سے روتے ہوئے پرندوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

رضیہ کا بچہ تھک چکا تھا جسے اس نے اٹھا کر سینے سے لگا رکھا تھا۔ ان دونوں کا بھوک سے برا حال تھا لیکن بلند و بالا قبریں دیکھ لینے کے بعد کچھ تسلی بھی ہوگئی تھی کہ شاید یہاں سے کچھ کھانے کو مل جائے۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی قبر پر دستک دے لیکن ایک عجیب منظر اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے وہاں رکی اور آنکھیں بند کر کے دوسری دنیا میں داخل ہوگئی۔ اب اسے آنے والا وقت نظر آ رہا ہے۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ ان بڑی بڑی قبروں سے کچھ فرشتہ نما آدمی اس پر لپک رہے ہیں۔ ان کی زبانیں منہ سے باہر ہیں اور منہ سے ایسی رالیں ٹپک رہی ہیں جیسی باؤلے کتوں کے منہ سے گرتی ہیں۔ سب کی سفید داڑھیاں ہیں اور سفید ہی کفن ہیں۔ اچانک ان کے چہرے زخمائے ہوئے نظر آنے لگ گئے۔

رضیہ کچھ سال پہلے کے خوفناک منظر میں قدم رکھتی ہے جہاں وہ ایک کارخانے میں ملازم تھی۔ اسی طرح وہاں بھی سفید داڑھیوں والے لوگوں نے اس کی عصمت کی دیوار کو گرایا تھا۔ تب آٹے اور روٹی کا بحران تو نہیں تھا لیکن اس کا حصول قدرے مشکل تھا۔ رضیہ ایک الہڑ مٹیار تھی اور اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے فیکٹری میں آئی تھی۔ ابھی چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ اس کی عزت پر حملہ ہوگیا۔ اس نے مزاحمت کے دوران دو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کیس میں اس نے عدالت عالیہ سے سزا بھی پائی اورپوری ایمان داری سے اس سزا کو مکمل کیا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اسے کس طرح مردانہ تھانے میں کئی راتوں تک رکھا گیا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ حاملہ تھی، اسے آٹھواں مہینہ تھا اور بڑی توند والے تھانیدار نے پوری رات اس پر بجلیاں گرائیں۔

اس بار وہ مزاحمت کرنے کے قابل نہیں تھی، اس نے اچانک آنکھیں کھول دیں۔ اس کے سامنے کوئی وجود نہیں تھا بس وہی بلند و بالا قبریں سینہ تان کر کھڑی تھیں۔ اس نے وہاں لگے گھنٹے کو زور سے ہلایا۔ ہر قبر میں سے ایک بڑی سفید داڑھی والا صوفی اس کی طرف لپکا۔ وہ ڈری نہیں بلکہ "بھوکی ہے" کی صدا لگائی۔ ان کے منہ رالیں پھینک رہے تھے بالکل وہ منظر تھا جو اس نے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا۔ ان کی رالیں ان کی سفید داڑھیوں پر گر رہی تھیں۔ رضیہ نے ان کے پیٹ کی بھوک مٹائی اور کچھ بدبودار کھانا پالینے کے بعد اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھر آئی۔ اس نے واپسی پر ایک قبر سے کفن نکالا اور اپنے جسم کو ڈھانپ لیا۔ کفن کے اس ٹکڑے سے بھی بدبو آرہی تھی لیکن کندھے ڈھانپنے بے حد ضروری تھے۔

وہ اسی سڑک پر چل رہی تھی۔ کڑی دھوپ نے اس کے سانسوں کی حرکت کو تیز کیا ہوا تھا۔ اس کی زبان باہر آ رہی تھی۔ ہر طرف ہو کا عالم تھاکوئی ذی روح اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی کی طرف واپس جانا چاہ رہی تھی اسے اپنے بچوں کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا۔ ان کی بھوک کی فکر اسے مسلسل مضطرب کیے جا رہی تھی۔ اس کے پاس سے ایک دو تانگے گزرے لیکن کرایہ نہ ہونے کے سبب وہ سفری راحت حاصل نہ کرسکی۔ ایک کھیتی میں ٹیوب ویل چل رہا تھا اس نے وہاں سے پانی پیا اور واپس سڑک کی طرف جانے لگی۔ اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے کی دنیا گھومنے لگی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے اسے پر لگ گئے ہوں۔

اس کے پاؤں زمین پر ہی تھے لیکن وہ مسلسل اڑ رہی تھی۔ وہ دھڑام سے نیچے گری اور بے سدھ زمین پر پڑی تھی۔ پاس ہی گند م کیی کٹائی پر لگی کچھ سکھ اور ہندو عورتیں بھاگ کر اس کی طرف آئیں۔ انہوں نے اسے اچھی طرح دیکھا اور دو عورتیں ایک چادر تان کر سڑک کی طرف کھڑی ہوگئیں۔ اب کی بار رضیہ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی لیکن رضیہ بے ہوش پڑی تھی۔ وہ انہیں اٹھا کر آم کے پیڑ کے نیچے لے گئیں۔ نومود بچی اور گونگا بھوک سے بلک رہے تھے۔ ان غیر مذہب عورتوں نے انہیں کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں مہیا کیں۔ تھوڑی دیر بعد رضیہ نے ہوش میں آنا شروع کردیا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کا پورا بدن سن تھا اور وہ چاہ کر بھی حرکت نہیں کر پا رہی تھی۔ ان عورتوں نے اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ ٹیوب ویل کی دوسری طرف سفید داڑھیوں والے کچھ بزرگ کھیتی باڑی میں مصروف تھے، انہوں نے یہ ساری صورت حال دیکھی اور لا حول ولا قوۃ پڑھتے ہوئے خاموش ہوگئے۔

رضیہ خوش تھی کہ اس کی ایک وقت کی بھوک مٹ چکی تھی۔ اس نے سامان اٹھایا اور اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔ سفید داڑھیوں والے بزرگ اس پر آوازیں کس رہے تھے۔ طعنہ زنی کر رہے تھے کہ بے شرم عورت تجھے شرم نہ آئی غیر مذہب عورتوں سے کھانا اور کپڑے لیتے وقت؟ تو کافر ہے، تجھے مرجانا چاہئیے۔ تم جیسی عورتیں ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ رضیہ کو بچوں کی بھوک کی فکر تھی۔ وہ اوجھل قدموں سے جھونپڑی کی طرف جارہی تھی۔ اس کی جھونپڑی کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ وہ اپنے درد کی شدت کو بھلا چکی تھی۔ جھونپڑی میں پہنچی تو بچے مرنے کے قریب تھے۔ اس نے انہیں پانی پلایا اور تھوڑا تھوڑا کھانا بانٹ کر دے دیا۔ ادھر گاؤں میں لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ چودھری اس دفعہ بھی گندم خرید کر گودام بھر رہا تھا۔ مسلسل بھوک نے اسے اندر سے بالکل خشک کردیا تھا۔ نومولود بچی کے لیے اس کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اتر رہا تھا۔ اب اسے پیٹ بھرنے یا بھوک ختم کرنے کے لیے کھانا نہیں چاہئیے تھا بلکہ چھوٹی بچی کا جہنم بھرنے کے لیے خوراک کی ضرورت تھی۔ وہ گاؤں میں داخل ہوئی اور سیدھی ڈھابے پر گئی۔ اس نے بچی کے لیے دودھ کی بھیک مانگی۔ اسے بھیک کے بدلے بھیک ملی تھی اور وہ اس عنایت پر بھی معترض نہیں تھی۔

رضیہ جھونپڑی میں پہنچی تو آسمان پر ہر طرف سرخی چھاگئی۔ کچھ دھندلے عکس اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ کسی اجنبی جگہ پر اس کا خاوند روٹی چوری کرنے کے الزام میں وحشیانہ تشدد کر کے ماردیا گیا ہے۔ اس کے جسم کی سبھی ہڈیاں بے رحمی سے توڑی گئی ہیں۔ اس کے جھونپڑی میں سوئے بچے بھی ابدی نیند سو چکے ہیں۔ تیز ہوا کا طوفان حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس کی جھونپڑی میلوں دور آنکھوں سے پرے جا پہنچی ہے۔ کالی رات میں تیز بارش اور ژالہ باری ہو رہی ہے۔ وہ اپنی جگہ پر پاؤں کے بل ساکت بیٹھی ہے۔ بچی کو چھاتی کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ سردی کی شدت سے بچانے کے لیے اس نے اپنی قمیض اتار کر بچی کو ڈھانپ لیا ہے۔ صبح اس کے ارد گرد اوباش نوجوان کھڑے ہیں۔ بچی نے چھاتیاں منہ میں لے رکھی ہیں اور نوجوان رضیہ کی اکڑی ہوئی کمر کی نرمی سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

Check Also

Palmistry Aur Ayyashi

By Saqib Malik