Anis Ashfaq Ki Shakhsiat Aur Fun
انیس اشفاق کی شخصیت اور فن
انیس اشفاق عہد جدید کے ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر، مترجم، خاکہ نویس، سفر نامہ نگار، نقاد اور محقق ہیں۔ انہوں نے لکھنئو کے ایک پرانے محلے بزازے میں 1950ء میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم ماں کی گود سے نصیب ہوئی۔ ان کی ماں ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں اور انیس اشفاق کا تلفظ اور لب و لہجہ درست کرنے میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ وہ انیس اشفاق کو تقاریر لکھ کر دیا کرتیں اور شیشے کے سامنے کھڑا کر کے ان کی پریکٹس کرواتیں۔
اس کے علاوہ وہ مدرسوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ ایم اے اردو میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں کافی نام کمایا۔ انہوں نے بچپن میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتے اور انہیں پھاڑ دیتے۔ آہستہ آہستہ ذہنی پختگی آتی گئی، شعور کے پردے وا ہوتے گئے۔ جس بچے نے بچوں ہی کے لیے کہانیاں لکھنے سے فنی زندگی کا آغاز کیا، آج ادبی حلقوں میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے اور دنیا انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
انیس اشفاق کی زندگی اور فن میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ کبھی وہ شاعری کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہیں تو کبھی ان کی طبیعت تنقید کی طرف راغب ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ خاکہ لکھتے ہیں، تو کبھی ان کا رجحان فکشن کی طرف ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت تھوڑے لوگ یا لکھاری کثیر الجہات ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر اس مشینی دور میں، مصروفیات کے باعث زیادہ تر لوگ ایک ہی صنف پر اکتفاء کرتے ہیں، لیکن انیس اشفاق نے ادب کے سبھی چشموں سے پانی پیا ہے۔ ان کی بے شمار تصنیفات منظر عام پر آ چکی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ دکھیارے (ناولٹ)
2۔ پری ناز اور پرندے (ناول)
3۔ خواب سراب (ناول)
4۔ کتبے پڑھنے والے (افسانوی مجموعہ)
5۔ ادب کی باتیں (تنقیدی مضامین)
6۔ بحث و تنقید (تنقیدی مضامین)
7۔ کوئے اور کالا پانی (تراجم، نرمل ورما)
8۔ در شہر دوستداراں (یاد نامہ، سفر نامہ کراچی)
9۔ یگانہ (انتخاب)
10۔ قائم چاند پوری (انتخاب)
11۔ مسعود حسن رضوی ادیب (مونو گراف)
12۔ اردو غزل میں علامت نگاری (تنقید)
13۔ غزل کا نیا علامتی نظام (تنقید)
14۔ خوشبوئے خاک (رپور تاژ)
15۔ روح انیس
16۔ ضرب الامثال
17۔ خاکے۔
انیس اشفاق کے ناولوں میں لکھنئوی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے۔ "دکھیارے" ناولٹ پڑھنے سے قاری کو اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ وہ ان کی آپ بیتی پڑھ رہا ہے۔ ان کے حالات زندگی کی مکمل جھلک ان کے اس ناولٹ میں موجود ہے۔ تین بھائیوں اور ایک ماں کی کہانی کے علاوہ محبت اور رومانیت کا عکس بھی دکھیارے میں موجود ہے۔ بڑے بھیا کا لافانی کردار اسی ناول سے منسوب ہے۔ یہی وہ ناول ہے جو ہر قاری کو اس کے اپنے گھر کی کہانی معلوم ہوتا ہے۔
خواب سراب، ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کا تسلسل ہے، جس میں امراو جان ادا کی بیٹی کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ناول "پری ناز اور پرندے" بھی ایک سپر اسٹور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لکھنئوی تہذیب، محبت، تجسس، امام بارگاہیں، مسجدیں، مندر، پرانی عمارتیں، لکھنئو کی گلیوں کی سیر، چلتے پھرتے لوگ، محافل اور سب کچھ ہے۔ اگرچہ اس ناول میں آپ بیتی کے عنصر نے تکرار بھر دی ہے لیکن ناول لکھنؤ کے اجڑنے اور شاہان لکھنؤ کی عیاشیوں کی مکمل داستان ہے۔
انیس اشفاق، آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے کارناموں کے معترف بھی ہیں اور ان پر کڑی تنقید بھی کرتے ہیں۔ انیس اشفاق کی تحریروں میں علامت نگاری، حقیقت نگاری، جادوئی حقیقت نگاری، تجسس، رومانیت، رنج و الم، آپ بیتی کا عنصر، ناد علی کا ذکر، معاشرتی بگاڑ، مظالم، غیر فطری عناصر اور داستانی رنگ موجود ہے۔ ان کے فن کا خاصا ہے کہ وہ قول محال سے کام نہیں لیتے۔ بالکل سیدھی اور آسان بات کرتے ہیں۔
انیس اشفاق کے افسانے بھی کسی شاہکار سے کم نہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے "کتبے پڑھنے والے" میں 8 افسانے ہیں اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ اردو افسانے میں وہ کہانی پن اور شخصی کردار واپس لے کر آئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں علاقائی رنگ اور آفاقیت دونوں موجود ہیں۔ وہ مذہب، مسلک، دین اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر دیکھتے، سوچتے، محسوس کرتے اور لکھتے ہیں۔ یہی خوبی انہیں ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
تراجم کے حوالے سے بات کی جائے تو بلاشبہ ترجمہ نگاری ایک بہت مشکل کام ہے۔ مشکل اس حوالے سے ہے کہ دنیا کے مختلف دانشوروں اور صاحب عقل لوگوں نے اس پر مختلف رائے دی ہے۔ کسی نے لفظی ترجمے کو پسند کیا، تو کسی نے معنوی انتقال کو اہمیت دی۔ انیس اشفاق نے تراجم نگاری میں وہ اسلوب ایجاد کیا ہے، کہ ترجمے کے بعد کہانی ان کی اپنی کہانی لگنے لگ جاتی ہے۔ انہوں نے آزاد ترجمے کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔
اس حوالے سے "کوئے اور کالا پانی" ان کی اپنی ہی کہانی لگنے لگ جاتی ہے۔ انیس اشفاق شروع سے ہی مختلف ادبی مباحث میں شامل ہوتے تھے۔ مختلف اساتذہ سے تنقیدی تبادلہ خیال کرتے تھے۔ شبیہ الحسن ان کے استاد خاص رہے ہیں، جن سے انہوں نے تنقید کو بہت زیادہ Discuss کیا۔ بہت سارے تنقیدی مضامین لکھے۔ 38 مضامین پر مشتمل ان کی دو کتابیں"ادب کی باتیں" اور "بحث و تنقید" منظر عام پر آ چکی ہیں۔
ان میں شعر و شاعری، نثر اور فکشن کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ وہ مختلف سیمیناروں، ورکشاپوں اور پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کئی ادبی خدمات سر انجام دے رکھی ہیں۔ لکھنئو یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کی عمارت بھی انہی کی کوششوں سے تعمیر ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک بہت خوب صورت لائبریری بھی ان ہی کی کوششوں کا ثمر ہے۔ ان کے زمانہ طالب علمی میں اردو (ڈیپارٹمنٹ)کے پاس محض ایک ہی کمرہ تھا۔
انہوں نے یونیورسٹی کے دیگر امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران انہیں کافی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ایک بہترین منتظم ہونے کا ثبوت دیا۔ انہوں نے اب تک ایک سو کے قریب لوگوں کو مقالہ لکھوایا ہے۔ 35 سال یونیورسٹی سے منسلک رہے، اور 16 سال تک وہ صدر شعبہ بھی رہے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو بے شمار ادبی ایوارڈز بھی دیے جا چکے ہیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ غالب ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید (2015ء)
2۔ فخر لکھنئو ایوارڈ (2015ء)
3۔ اتر پردیش ہندی اردو ادب ایوارڈ (2012ء)
4۔ کتاب بحث و تنقید پر، اتر پردیش اردو اکادمی کا پہلا انعام (2009ء)
5۔ ساہتیہ اکادمی ترجمہ ایوارڈ (2000ء)
6۔ کتاب ادب کی باتیں پر، اتر پردیش اردو اکادمی کا پہلا انعام (1997ء)
7۔ امتیاز میر ایوارڈ (1993ء)۔