Abdul Aziz Khalid Ki Manqabat Nigari, Aik Jaiza
عبدالعزیز خالد کی منقبت نگاری، ایک جائزہ
صاحب کتاب ہونا ایک ایسا خواب ہے جس کی تکمیل کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا انتظار لاحق رہتا ہے۔ مذکورہ کتاب عنایت ہوئی تو طبیعت کی ناسازی کی بناء پر سوچا کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد اس کے حروف سے نظریں گزاروں گا۔ وجہ یہ تھی کہ ایسی کتابیں"تحقیقی مقالات" کی صورت میں جنم لیتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ کی زینت بن جاتی ہیں۔ یا تو یہ قاری پر بے وجہ کی اکتاہٹ طاری کر دیتی ہیں یا پھر انتہائی روایتی انداز میں لکھی گئی ہوتی ہیں۔
کتاب پڑھنی شروع کی تو "میڈم آمنہ شہزادی" کے اسلوب نے جکڑ لیا۔ "آمنہ شہزادی" گورنمٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج سانگلہ ہل میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ "عبدالعزیز خالد کی منقبت نگاری" کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی کتاب ان کے ایم۔ فل کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ مقالہ لکھنا کوئی بائیں ہاتھ کا کام نہیں ہوتا بلکہ اس کی تکمیل کے لیے کئی مراحل میں سے ڈوب کر گزرنا ہوتا ہے۔
موضوع کی تلاش، خاکہ تیار کرنا، مواد اکٹھا کرنا، مسلسل ریسرچ کرنا اور مسودہ تیار کر کے پیش کرنا یہ سبھی معاملات کافی تھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ بالخصوص پہلا مقالہ لکھتے وقت اسکالر، اسکالر نہیں ہوتا بلکہ ریسرچ کے میدان میں طفل مکتب یا رینگنے والا کیڑا ہوتا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو کسی افسانے کی طرح اسے ایک ہی نشست میں ختم کرنے کی آرزو پیدا ہوتی گئی۔ راقم کو ایک مضبوط مقالہ پڑھنے کو ملا اور یہ وہم بھی پیدا نہیں ہو رہا تھا کہ کسی مصنف کی پہلی کتاب ہے۔
موصوفہ نے بڑی خوبصورتی سے مقالے کو طوالت سے بچایا ہے۔ عمومی طور پر کتابیں زیادہ صفحات گھیر لیتی ہیں لیکن ان میں معلومات کا فقدان ہوتا ہے۔ لکھاری دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو کر الفاظ سے الفاظ پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور کورے کاغذ کو سیاہی سے بھرتا چلا جاتا ہے۔ کتاب کو چار ابواب تک محدود رکھا گیا ہے۔ پہلے باب میں عبدالعزیز خالد کے سوانحی حالات کو یوں بیان کیا گیا ہے گویا کوئی کہانی سنائی جا رہی ہو۔ دوسرے باب میں منقبت نگاری کا مفصل تعارف دیا گیا ہے اس کے آغاز و ارتقاء پر مدلل انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔
تیسرے باب میں ثانی لاثانی، حضرت ابوبکر صدیق کے حوالے سے عبدالعزیز خالد کی منقبت نگاری سے آگاہ کیا گیا ہے اور فکری و فنی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ چوتھے اور آخری باب میں حضرت علی کے بارے میں عبدالعزیز خالد کے خوبصورت اشعار کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسلوب تگڑا اور جاندار ہے، ربط ہی ربط دیکھنے کو ملتا ہے جو کتاب میں قاری کی دلچسپی پیدا کرنے کا مؤجب بنتا ہے۔ مشکل الفاط کا انتخاب کیا گیا ہے اور یہ اس بات پر دلالت ہے کہ لکھاری کا ڈکشن مضبوط ہے۔
الفاظ مشکل تو ہیں لیکن فہم و ادراک کی خصوصیت سے خالی نہیں ہیں۔ ابواب اور مواد کو پیش کرنے کی ترتیب بھی کافی متاثر کن رہی ہے۔ اس دوران غیر ضروری مواد کو شامل کتاب نہیں کیا گیا تاکہ ربط میں خلل نہ پڑے البتہ کہیں کہیں لفظی تکرار موجود ہے۔ حوالہ جاتی اشعار کے انتخاب میں بھی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے اور دیگر حوالہ جات کے استعمال میں بھی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ پایا جاتا ہے۔ جملے چھوٹے اور مکمل ہیں۔ ہمارے یہاں مقداری کام میں بھلائی سمجھی جاتی ہے اور اس سے معیار کو لتاڑنے کی کوشش بلکہ شعوری کوشش کی جاتی ہے۔
راقم کو کتاب کے "معیاری پن" کے علاوہ کم صفحات پر مبنی ایک جامع اور مکمل کتاب بھی معلوم ہوئی ہے۔ انہوں نے تمام تحقیقی تقاضوں کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ فنی سے زیادہ فکری سوچ کو برقرار رکھا ہے۔ کتاب ھٰذا عبدالعزیز خالد کے حالات زندگی اور ان کی شاعری بالخصوص نظم نگاری کے حوالے سے ایک مستند حوالہ سمجھی جائے گی۔ اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوگی اور خالد شناسی کی روایت کو رکنے نہیں دے گی۔ اس کے علاوہ اردو ادب خاص طور پر شاعری کے ایک سنجیدہ قاری کے لیے سنجیدہ کوشش ثابت ہوگی جس سے اس پر عبدالعزیز خالد کی نظم نگاری مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔