Wapsi
واپسی
نوکری پیشہ شخص کی زندگی ماند عاشق ناکام ھوتی ہے۔ کہیں صبح ھوتی ہے کہیں شام ھوتی ہے۔ اسی وجہ سے برسوں پہلے ہم نے اپنے بال بچوں کو لاہور شفٹ کر دیا تھا۔ تاکہ اُن کی پڑھائی میں خلل نہ آئے اور ہم خود در بدری کی صلیب اُٹھائے برہنہ پاء و چاک گریباں نگر نگر کی خاک چھانتے رھے۔ اب جبکہ آبلہ پائی و صحراء نوردی میں تسکین ملنے لگی ہے تو ہمارا تبادلہ لاہور کر دیا گیا ہے۔
لاہور تبادلے کی خبر پا کر ہم خاصے شاداں و رقصاں تھے کہ باقی کے ایام زیست بیگم بچوں کے ساتھ گزر جائیں گے۔ ہماری اس شادمانی کو دیکھ کر ہمارے ایک دوست نے کہا کہ" کبھی کبار بیگم کے پاس جا کر رہنا اور بات ہے مگر مستقل اور مسلسل اپنی سگی بیوی کے ساتھ رہنا تیشہ فرھاد اُٹھانے سے بھی زیادہ مشکل ہے"۔ لیکن ہم تو اُس وقت حافظ شیرازی کو گنگنا رہے تھے
ہنگام تنگدستی در عیش کوش و مستی
کایں کمیائے ہستی قارون کند گدا را
(مشکل اور تنگدستی میں عیش و مستی کی جانب چلے جاؤ۔ یہ وہ دوا ہے جو فقیروں کو بادشاہ بنا دیتی ہے)۔
اس لیے اُس وقت ہم نے اپنے دوست کی بات پر توجہ نہ دی۔ مگر جب سے ہم لاہور وارد ھوئے ھیں روز اس کی بات یاد آتی ہے۔
لاہور آ کر جو چیز سب سے پہلے مجھ پر گراں گزر رہی ہے وہ شور ہے۔ یہ شور گھر کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ ایک ایسا شخص وہ سال ہا سال سے ایسے ماحول میں رہ رھا ھو جہاں"تنہائیاں لپٹ کر روتی ھیں بام و در سے" اس کے لیے ایک بھرے پُرے گھر میں قیام کرنا اور چھوٹے چھوٹے شہروں کی خاک چھاننے والے کے لیے لاہور جیسے شہر میں آ کر رہنا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی گوتم بدھ کو لا کر گوال منڈی میں بیٹھا دے۔
میری ہر صبح آوازوں کے ایک طوفان سے شروع ھوتی ہے۔ اُٹھ جاؤ۔۔ کالج سے دیر ھو رہی ہے۔۔ اماں میرے فلاں کپڑے کدھر ھیں۔۔ ناشتہ تیار ہے جلدی کرو۔۔
اسی عالم انتشار میں ہم بھی بیدار ھو کر دفتر کی تیاری شروع کر دیتے ھیں۔ جب تیار ہو کر باہر آتے ہیں تو بچوں سے بچا ہوا ناشتہ ہمیں"ڈال" دیا جاتا ہے۔ اگر کسی دن ہم "خزاب و خندہ و خوش لہجگی کے فیض سے" جوان لگنے کی سعی لا حاصل کر لیں تو بیگم کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ ارشاد فرماتی ھیں۔۔ آج خیر ہے نا۔۔ دفتر ہی جانا ہے نا۔۔ اُن کی اس بات پر ہم سر جھکا کر عرض کرتے ہیں کہ
من آں زماں طمع ببریدم زعافیت
کایں دل نہاد در کف عشقت زمام را
(میں نے اپنے اندر کے ہر لالچ کو تب سے ختم کر دیا ہے جب سے میں نے اپنے دل کی باگ دوڑ تیرے عشق کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ حافظ شیرازی)۔
لیکن اس کے باوجود اُس دن بیگم کی دو چار کالیں دفتر کے لائین نمبر پر ضرور آتی ھیں۔ سچ کہا تھا حضرت آمیر مینائی نے
میری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
اُنہیں مرنے کا ھی اب تک نہیں اعتبار آیا