Khalid Masood Khan Aur Sadarti Award
خالد مسعود خان اور صدارتی ایوارڈ
شاعر و صحافی محترم خالد مسعود خان کو کالم نگاری اور شعری خدمات پر صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان ہوا ہے۔ اگر آپ سچ پوچھیں تو ہمیں اس پر خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی ہے۔ اور حیرت اس بات پر کہ اندھوں کے شہر میں کون ایسا صاحب بصیرت ہے جس نے خالد مسعود خان کو دیکھ لیا ہے۔ بہروں کے دیار میں کون ایسا صاحب بصارت ہے جس نے خالد مسعود کو سن لیا ہے۔ اور مقتل وقت میں کون ایسا صاحب وجدان ہے جس نے خالد مسعود کو پہچان لیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ایوارڈ جس طرح بانٹے جاتے ہیں اسے دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
ایسے عالم میں جب تمام نااہل لوگوں کو ایوارڈ دیے جا رہے ہوں اور اگر ان میں سے کسی ایک آدھے کو جینوئن ایوارڈ مل جائے تو وہ بے چارہ شرمندہ شرمندہ گھوم رہا ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خالد مسعود صاحب بھی آج کل اسی شرمندگی کو محسوس کر رہے ہوں گے۔ جہاں تک شاعروں کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں ہر وقت کم از کم ایک لاکھ پچیس ہزار شاعر موجود رہتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک خود کو میر و غالب، انیس، دبیر اور اقبال و جوش سے بھی بلند مانتا ہے۔
ہر چند کے مانتا وہ خود ہی ہے کیونکہ اس کے محلے والے تو کجا، اس کے گھر والے بھی اس کو شاعر نہیں مانتے۔ مگر دل کی لگی کا کیا کریں۔ ہم چونکہ نہ شاعر ہیں نہ نقاد ہیں اس لیے خالد مسعود صاحب کی شاعری کی فنی باریکیوں کو تلاش نہیں کر سکتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ ان کی شاعری بے آب و گیاہ صحرا میں بارش کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اداس چہروں پر مسرت آمیز مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہے اور بجھے ہوئے دلوں کو اپنے نور سے منور کر دیتی ہے۔ اور ہمارے لیے ان تمام خوبیوں والا شخص بڑا شاعر ہوتا ہے۔
شاعری کی حد تک تو میں اس ایوارڈ کو کسی حد تک ہضم کر لیتا مگر صحافت اور کالم نگاری پر خالد مسعود کو ایوارڈ ملنے پر میں ابھی تک انگشت حیرت کو دانتوں تلے دبائے بیٹھا ہوں کیونکہ یہ ایوارڈ تو درباری صحافیوں اور لفافیوں کو ہی نصیب ہوتا ہے جبکہ خالد مسعود تو اپنے قلم کو روشنائی کی بجائے حاکموں کے خون میں ڈبو کر لکھتے ہیں ان سے جب بھی حلف ذہن و وفاداری جاں کا تقاضا کیا گیا انہوں نے مصطفی زیدی کے الفاظ میں جواب دیا کہ۔
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو کہ تو خنجر سے عدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا!
آج ہمارے صحافی ذلت کے جس نشیب میں گر چکے ہیں وہاں خالد مسعود جیسے لوگ رونق قلم و علم ہیں۔ منٹو صاحب نے کہا تھا کہ قلم فروش صحافی جسم فروش عورت سے زیادہ بدکار ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے وطن کے زیادہ تر صحافی اور بڑے بڑے نام ڈالر کی پازیب پہن کر برسر بازار رقص برہنگی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے عالم قحط رجال میں حاکموں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے خالد مسعود خان کو ایوارڈ ملنا باعث حیرت نہ ہو تو کیا ہو۔
قیامت ہے کہ سن لیلی کا دشت قیس میں آنا
کہا حیرت سے یہ بھی ہوتا ہے زمانے میں!
خالد مسعود صاحب جس طرح شریفوں، زرداریوں، انصافیوں، گیلانیوں، قریشیوں سب کو بے نقاب کرتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کسی نے خالد مسعود صاحب کا نام دیا ہو مجھے لگتا ہے یہ غلطی نگرانوں سے سرزد ہوئی ہے اور بہت جلد ان کو اس پر پچھتانا بھی پڑے گا۔ اس پر مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آ گیا جب کسی بہت ہی چہیتے بھانجے نے فرط محبت میں اپنی خالہ کے ہاتھ پکڑ کر کہا تھا کہ خالہ آپ کے ہاتھ کتنے نرم ہیں، تو ان کی خالہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا تمہیں تو نرم لگیں گے اس لیے کہ آج تک تمہیں لگے نہیں۔ نگرانوں کو بھی ابھی تک خالد مسعود کے ہاتھ لگے نہیں۔ جب لگیں گے تو یہ ضرور پچھتائیں گے۔