Hamari Facebook Kahani
ہماری فیس بک کہانی
ہمیں فیس بک پر آئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور اس کے بارے میں ہم اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ فیس بک کے احباب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایں طفل یک شنبہ۔
ہمیں تو فیس بک کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا ہماری ایک اہل علم دوست نے بتایا کہ فیس بک علم و آگہی کا ایک ایسا بحر بے کنار ہے کہ اگر ہم اس میں غوطہ زن ہوئے بغیر مر گئے تو بروز حشر جہلاکے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ ان کی اس بات پر پہلا خیال تو برقی رو کی طرح یہ ذہن میں گزرا کہ ہم بروز حشر کن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے جب اپنے احباب پر نظر ڈالی تو وہاں عجب تماشا تھا۔ کوئی پیر خانقاہ تھا تو کوئی ملحد عقل آگاہ تھا، کوئی صراط مستقیم پر چلنے والا تھا تو کوئی ہر چہرہ پری رو پر پھسلنے والا تھا۔ کوئی علم و ریاضت کا سلطان تھا تو کوئی مینائے نغمہ زن کا قدر دان تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس امید نے ذرا ڈھارس بندھائی کہ ہم محبان اولاد رسول خدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
خیر، ہم اس نیک بخت خاتون کے کہنے پر فیس پر آ گئے لیکن ہماری حالت اس رند پاک باطن کی سی تھی جو جنت میں پہنچ کر اکیلا ہی گھوم رہا تھا۔ جب اس حالت کے بارے میں اس خاتون کو آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ اس میں کیا مشکل ہے میں اپنی فرینڈ لسٹ آپ کو بھیج رہی ہوں اور اپنے احباب کو بھی بتا دیتی ہوں۔ ان کی اس ہمت افزائی پر ہم نے ان کی فرینڈ لسٹ کو اپنی درخواست شناسائی روانہ کر دی۔ اورحیرت انگیز طور پر اکثر نے شرف قبولیت بھی بخش دیا۔ چند ایک نے جواب نہ دیا تو ان کو ہم نے تہجد کے وقت دوبارہ درخواست بھیجی۔ ان کا ناراضگی سے جواب آیا، "یہ درخواست بھیجنے کا کون سا وقت ہے"۔ جس پر ہم نے عرض گزاری، "قبولیت کا تو یہی وقت ہے"۔ اس پر انہوں نے ہماری درخواست قبول کر لی۔
آہستہ آہستہ ہم پر یہ راز بھی منکشف ہوا کہ ہمارے احباب میں اکثر خواتین ہیں۔ عقلی طور پر ہمیں اس پر خوش ہونا چاہئے تھا اور ہم ہوئے بھی لیکن جب ان خواتین کی تحریریں پڑھیں اور ان کے پروفائل کو دیکھا تو ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ان میں سے کوئی قادرالکلام و صاحب دیوان شاعرہ تھی تو کوئی عصمت چغتائی کی ہم پلہ افسانہ نگار۔ کوئی عینی آپا کے پائے کی ناول نگار تھی تو کوئی نوبل انعام یافتہ کتب کی مترجم تھیں، کوئی اس قدر بلند پایہ تنقید نگار تھی کہ ہم نے شکر کیا کہ صاحب کتاب نہیں ہیں۔ لیکن ان خواتین میں ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ سب حقوق نسواں کی علمبردار ہیں، "میرا جسم میری مرضی والی" نہیں لیکن "میرا قلم میری مرضی والی"۔ گویا میرے سامنے آج کل رنگ و نورکا ایک چمستان آباد ہے ہر طرف رنگ برنگے پھول مہک رہے ہیں لیکن میری حالت حضرت آدم کی سی ہے کہ میں ان میں سے کسی بھی پھول کو چھو نہیں سکتا۔
دل می رود زدستم صاحبدلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا