Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Kharal
  4. Baap

Baap

باپ

ہماری چند شناسا خواتین حقوق نسواں کی علمبردار ہیں۔ وہ باپ کو بھی اس لیے بُرا سمجھتی ہیں کہ وہ مرد ہے۔ ویسے ہم بھی اپنے باپ کو بُرا تو سمجھتے ہیں مگر اس لیے نہیں کہ وہ مرد تھے بلکہ اس لیے کہ ہمیں پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانے کے چکر میں روز ہماری معصوم خواہشات کا خون کرتے تھے۔ روز صبح سویرے، جب ہم رات کو دادی کی سنائی ہوئی پریوں کی کہانی میں ہیرو کا خواب دیکھ رہے ہوتے تو وہ ہمیں اپنی پاٹ دار آواز میں اس طرح بیدار کرتے کہ تمام خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے اور ہم ان ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کو سمیٹ کر مدرسے روانہ ہو جاتے۔

مدرسے کی حالت گھر سے بھی بُری تھی۔ چونکہ ہم بچپن ہی سے خود کو طالب علم کی بجائے مطلوب علم سمجھتے تھے، اس لیے اساتذہ بھی ہم پر خصوصی توجہ فرماتے تھے، اس لیے ہمارا چہرہ اکثر نیلا رہتا تھا۔ ہر چند کہ نامہ سیاہ تو ہم بہت بعد میں ہوئے مگر روسیاہ ہم بچپن سے تھے۔ اس لیے مار کھانے کے بعد ہمارا چہرہ لال کی بجائے نیلا ہو جاتا تھا۔ مدرسے کا عذاب بھوگ کر گھر واپس آتے اور کھانا کھا کر آرام کرنے کا ارادہ کر ہی رہے ہوتے تو حکم آتا کہ ٹیوشن کا وقت ہوگیا ہے۔ باقی سب ہمارے ساتھی بچے ٹیوشن پرمزہ کرنے جاتے تھے مگر ہمارے ابا نے ٹیوشن بھی ایسے اساتذہ کے پاس رکھوائی تھی جو خاصے ظالم تھے۔ یعنی ہم پیسے دے کر مار کھانے جاتے تھے۔

ٹیوشن سے لوٹتے تو قاری صاحب کو اپنا منتظر پاتے۔ شام کو قاری صاحب سے جان چھوٹتی تو ہم کھیل کود کے لیے گھر سے باہر جاتے۔ لیکن وہاں بھی نادر شاہی حکم تھا کہ مغرب سے پہلے گھر لوٹنا ضروری ہے اور ہمارے گاؤں کی مسجد کے امام صاحب بھی لگتا ہے بہت جلدی میں تھے۔ عصر کے قریب ہی مغرب کی اذان دے دیا کرتے تھے۔ یوں ہمارا دن تمام ہوتا اور رات کو سکول کا کام ختم کرکے جلد کھانا کھا کے سونے کی ہدایت جاری ہو جاتی۔

اسی عالم بے کسی و بے بسی میں نجانے کتنے ماہ و سال گزر گئے اور آخر کار ایک دن وہ معجزہ رونما ہواجس کا ہمیں گمان تک نہ تھا۔ باپ کی پھٹکار اور اساتذہ کی مار نے ہمیں میٹرک میں اتنے نمبر دلا دئیے کہ ہم لاہور کی سب سے عظیم درس گاہ میں داخلے کے قابل ہو گئے۔

یہ پہلا دن تھا جب ہم نے اپنے ابا کو خوش دیکھا، کالج پہنچے تو وبال یہ ہوا کہ ہمارا داخلہ تو ہوگیا مگر ہوسٹل والی لسٹ میں ہم نہیں تھے۔ مجبوراً میں اور چند اور میرے جیسے نالائق طلبا نے مل کر ایک مکان لیا۔ (ویسے نالائق طلباءمیں سے کچھ آج عسکری اور سول اداروں میں اونچے عہدوں پر فائز ہیں۔)مکان کالج سے دور تھا اس لیے بسو ں میں آنے جانے میں بہت تکلیف تھی۔ جب میں چھٹیوں میں گھر آیاتو اس کا ذکر اباسے کیا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جس دن ہم واپس جانے لگے تو پتا چلا کہ ایک عدد موٹر سائیکل ٹرین میں ہمارے ساتھ ہوگا اور ماہانہ جیب خرچ میں بھی دو سو پچاس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

ہم کالج میں تھے توایک دن ہمارے ابا ہم سے ملنے آئے۔ ان کا رکشہ پر آنا ہمیں عجیب سا لگا۔ شاید اس لیے ہمارے دوست احباب کے والد بڑی بڑی کاروں میں آتے تھے۔ کپڑے بھی انہوں نے ویسے ہی پہن رکھے تھے جیسے وہ گاؤں میں باہر جاتے ہوئے پہنتے تھے مگر مجھے وہ کپڑے بھی اچھے نہیں لگے۔ میں ان کو ساتھ لے کر کینٹین پر آ گیا۔ چائے پیتے جب انہوں نے ریلیکس کرنے کے لیے ٹانگ پر ٹانگ رکھی تو میں نے ان کی جوتی دیکھی جس کے تلوے میں سوراخ تھا۔ مجھے اپنے ابا پر بہت غصہ آیا کہ یہ مجھے دوسرے طلباءکے سامنے شرمندہ کروائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس دن کینٹین پر رش نہیں تھا۔

خیر وقت کا پہیہ گھومتا رہا، ہم کالج سے یونیورسٹی اور پھر چند اور جاں سوز مراحل سے گزر کر ایک دن افسر بننے میں کامیاب ہو گئے۔ میں ایک بڑی کمپنی میں چھوٹا سا افسر بن کر بہت خوش تھا۔ میرے افسر بننے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے ابا کی میری ذات میں دلچسپی کم ہوگئی ہے، شاید اس کی وجہ میرے چھوٹے بھائیوں کی پڑھائی یا بہنوں کی شادیوں کی تیاری تھی۔

میں اچھا خاصا کما رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اپنے باپ کا مالی طور پر ساتھ دوں، خاص طور پر بہنوں کی شادی پر، لیکن ایک کمینی سی خواہش تھی کہ میرا باپ اس سلسلے میں مجھ سے بات کرے یا کم از کم ماں کے ذریعے کوئی پیغام ہی بھیج دے، مگر میری خواہش کبھی پوری نہ ہوئی۔ میری سب سے چھوٹی بہن کی شادی پر جب میں نے ماں سے کہا کہ میرے پاس کافی روپیہ ہے کچھ چیزیں میں بھی لے دیتا ہوں تو اس نے کہا بیٹا ہم نے سب کچھ بنا لیا ہے۔ ویسے تم اپنی بہن کو تحفہ دینا چاہو تو دے دو۔ اسی طرح میں ابا کی دی ہوئی موٹر سائیکل سے کمپنی کی دی ہوئی چھوٹی اور پھر بڑی گاڑی تک پہنچ گیا۔

میں نے کئی بار اپنے اباسے کہا کہ جب انہوں نے لاہور آنا ہو تو بتایا کریں میں گاڑی ڈرائیور بھیج دوں گامگر انہوں نے کبھی نہیں کہا۔ ہمیشہ بس پر آئے اور میں نے کہا توبہانہ کر دیا کہ اچانک کام آ گیا تھا۔ وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا، میری بہنیں اپنے گھروں کی ہوگئیں، بھائیوں کی پڑھائی کے بعد نوکری لگ گئی، اور پھر ایک دن میرا ابا مر گیا۔ میری معصوم خواہشوں کا قاتل مر گیا۔ مجھے بہت خوش ہونا چاہیے تھا مگر میری آنکھیں، میرا دل، میری روح، آج تک ماتم کناں ہیں، نجانے کیوں؟

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq