Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Zalzala

Zalzala

زلزلہ

زمین کے نیچے پگھلتی، سرکتی چٹانیں آہستہ آہستہ نہ جانے کتنے سال عدم توازن کا شکار ہوتی رہیں، جن سے پھر ایک دن یکایک ایسی شکت وریخت ہوئی کہ بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہم اس سانحہ کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے خطرناک اور مہلک زلزلے کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ اکتوبر 2005 کا واقعہ ہے۔ لیکن اس زلزلہ کے بعد ہوا کیا۔ بہت شوروغل اور غم وحزن بھی ہوا، مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سے عملی اقدامات بھی کئے گئے۔ فوری طور پر ہنگامی حالت کا نفاذ کردیا گیا۔

ساری کی ساری سرکاری مشینری اور وسائل اور بیشتر عسکری مشینری اور وسائل ہنگامی حالت سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑے۔ دوسری طرف وطن عزیز کے طول وعرض میں لوگوں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مواخات کی تحریک چلائی۔ ہر طرف سے امدادی سامان کے ٹرکوں کے قافلے متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہونے لگے۔ یہ انسانی ہمدردی اور مدد کے لحاظ سے یہ ہماری تاریخ کا شاید روشن ترین باب ہے۔

ایک زلزلہ اب آیا ہے۔ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غیور مسلمانوں، اسلاف کے وارثوں، قوموں کی امامت کے داعیان کے عمومی معاشرتی کردار کی خوش فہمی کی خستہ دیمک زدہ عمارت عین آزادی کے دن زمین بوس ہوگئی ہے۔ کردار کی مضبوطی کے باعث حیا کے ظاہری ستونوں کو ایک عرصے سے بے راہ روی کی دیمک لگی رہی۔ الیکٹرانک میڈیا، اور جدید نظریات کے علم برادران ملت کی مساعی اور والدین اور اساتذہ کی غفلت اور تن آسانی کا اجتماعی نتیجہ جس کی جھلک ہمیں گاہے بگاہے دکھائی دے جاتی رہی مگراس بے رحم برہنہ فلم کا مکمل مشاہدہ ہمیں عین یوم آزادی کے روز عین قرارداد پاکستان والی جگہ پر ملا۔

میری نظر میں یہ سانحہ اس زلزلے سے بڑا حادثہ ہے۔ مگر ہم نے اسے ایسا بھیانک حادثہ نہیں مانا، کیوں کہ اگر ہم نے اس کے میگنیچیوڈ کا درست ادراک کیا ہوتا توسماجی زرائع ابلاغ پر قصور وار کا تعین جیسا بے مقصد کام کرنے کی بجائے اس بات پر تفکرکررہے ہوتے کہ بھوک سے بلکتے اس سماج کا جمہور بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ ترقی اور قوموں کی برابری سے اہداف چھوڑ کر سطحیت کا اس قدر دلدادہ کیسے ہوگیا۔

اور سرکار کی طرف سے حسب معمول 'نوٹس' لینے کی بجائے اب تک اس پر کئی ٹھوس اقدامات کیے جاچکے ہوتے۔ سب سے پہلے انتظامیہ کے وہ افسران جو ساڑھے تین گھنٹے (اگر یہ شیطانی وقوعہ واقعی ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا) اس سے باخبر رہے انہیں اس مجرمانہ غفلت پر اب تک سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔

پھر مقننہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہوتا۔ اس واقعہ پر اور ایسے دیگر واقعات پرسخت سزاؤں کے قانون کی عدم دستیابی ہمشہ مجرمان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے لیے آن کی آن میں مشاہرے دوگنا کرلینے والی مقننہ دہائیاں گذر جانے کے بعد غیر روایتی جرائم کیلئے مناسب سزاؤں کے قوانین وضع ہی نہیں کرپاتی۔ اور سب سے بڑھ کر دانشوروں اور اہل علم وحکمت کے، جامعات کے اساتذہ اور انسانی نفسیات کے ماہرین کے ہنگامی اجلاس کے کئی ادوار ہوچکے ہوتے کہ یہ کیا ہوگیا، کیوں ہوگیا۔ وجوہات کیا ہیں اور تداراک کیا ہے۔

۔۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، جس کا مطلب یہ ہے یہ ہمارے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اگرچہ یہ تھی۔ مگر ہمارا ردعمل غیر معمولی، مبنی بر حکمت ہرگز نہیں ہے۔ اور جب تک ہمیں اس زیاں کا احساس نہیں ہوجاتا تب اپنے بچیوں اور بچوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ۔۔ کوالٹی کونٹینٹ بھی کسی چڑیا کا نام ہے، حصول شہرت کے لیے چھچھورا ہونا ضروری نہیں، اوردوسری بات خاتون کسی بھی حلیے میں کچھ بھی کررہی ہو وہ قابل تکریم انسان ہے، 'دستیاب' یا 'موقع' ہرگز نہیں ہے۔

Check Also

Future Planning

By Khateeb Ahmad