Ustad Ji
استاد جی
ہیں جی یہ زیرو پیریڈ کیا ہوتا ہے۔ پہلی بار یہ لفظ ہم نے آٹھویں میں سنا۔ جواب ملا کہ آٹھویں اے کے استاد بچوں کو اسمبلی میں نہیں جانے دیتے بلکہ جو وقت اسمبلی میں خرچ ہوتا ہے اس میں بھی پڑھاتے ہیں۔ عجب ہے بھائی۔۔ جب پڑھنا شروع کیا تو۔ شکر ادا کیا۔۔
ایسا زبردست انداز۔۔
پہلی بار رنگین چاک سے تختہ سیاه پر لکھے گئے حروف کا سحر دیکھا۔ جو وہ اپنی جیب سے خرید کر لاتے کہ سکول والے صرف سفید چاک مہیا کرسکتے تھے۔ انگریزی پڑھائی، کورس کیا ہے بالکل الگ بات ہے۔ ہمیں کیا پڑھنا ہے وہ سب پڑھایا جارہا ہے۔ ٹینسز، ورب، ناؤن، پراپر ناؤن، ایکٹو، پیسیو وائس اور وہ سب کچھ جو آج تک ہماری زندگی کا حصہ ہے۔
پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ اگر سڑک کے بارے میں بتانا ہے۔ تو لکھیں گے road۔ پھر بتائیں گے کہ جو کچی سڑک ہوتی اسے path کہتے ہیں۔ جو اینٹوں سے بنا راستہ ہوتا ہے اسے paved path کہتے ہیں۔ جو راستہ انسانی قدموں کے نشانات سے بنتا ہے اسے trail کہتے ہیں۔ اور جو سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کیلئے راستہ ہوتا ہے اسے foot path کہتے ہیں۔ بخدا آج بھی حافظہ میں یہ الفاظ انہیں کے بٹھائے ہوئے ہیں۔
گول چہرہ، گھنی موچھیں، خشخشی چھوٹی سی داڑھی، چمکتی آنکھیں، سانولا سا رنگ اور کسی قدر گہرے مگر موٹے ہونٹوں پر ایک شرارتی سی مسکراہٹ۔ یہ تھے ہمارے استاد ماسٹر اسحٰق۔ جماعت میں پڑھتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوا کہ پڑھ رہے ہیں، لگتا تھا کوئی زبردست گیم شو چل رہا۔ طلباء کے قہقہے راہداریوں سے ہوتے دوسری جماعتوں کے طلباء کے کانوں تک پہنچتے جو حیرت زدہ رہا کرتے کہ ان کی جماعت میں کیا ہوتا ہے۔ اخلاقیات پر، عقائد پر خاندانی نظام پر، معاشرتی اقدار پر ماضی اور حال کی تدریج پر۔۔ والدین اساتذہ کی تکریم پر اور حتیٰ کہ سیاست پر بھی بات ہوتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارا زندگی کا شاید ایک تہائی علم ہمیں آٹھویں میں جماعت میں عطاء ہوا۔۔
پھر جب سکول سے چھٹی ہوجاتی تو سکول کے قریب ہی ایک ڈیرہ بنایا گیا تھا۔ جماعت کے قابل طلباء اور نالائق طلباء وہاں چلے جاتے۔ قابل طلباء بنا فیس کے اور نالائق طلباء معمولی فیس ادا کرکے تین گھنٹے مزید پڑھتے۔ لیکن پڑھنے سے پہلے قریبی ہوٹل سے ایک بڑا سا پیالہ چنے کی دال اور ایک برا چنگیر روٹیوں کا بھرا ہوا آتا تھا۔۔ ایسا لطف اس دال میں تھا کہ آج بھی جی کرتا ہے کہیں سے وہ پیالہ اور چنگیر آجائے۔
سہ پہر کی اس پڑھائی میں فرق یہ ہوتا کہ وہاں ہر بچے کو ہر سوال کی مشق لکھ کرکرنا ہوتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سب کچھ ازبر ہوجاتا۔ الحمد للہ ان کی تعلیم وتربیت کا فیضان تھا کہ ہم دو طلباء نے لاہور بورڈ سے وظیفہ لیا جو اس وقت غالبا پورے بورڈ میں سو لوگوں کو دیا جاتا تھا۔
سکول سے جانے کے بعد کچھ عرصہ رابطہ رہا پھر ایک بار ملنے گئے تو معلوم ہوا ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد بہت کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوپایا۔ کچھ عرصہ قبل ایک دوست نے بتایا کہ ماسٹر اسحٰق فوت ہوگئے ہیں۔ آنسوؤں اور دعاوں کا مقدور بھر نذرانہ پیش کیا۔ خدائے بزرگ وبرتر اپنی رحمتوں کے خاص حصار میں رکھیں۔
میرے محسن میرے مربی میرے استاد۔ اللہ کرے سب کو زندگی میں کم از کم ایک استاد ایسا نصیب ہو۔