Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Turning Point

Turning Point

ٹرننگ پوائنٹ

لوہے کی فیکٹریوں میں جب پرزے بناتے ہیں تو ان پر سے اضافی لوہا برادے کی شکل میں اترتا ہے جو "بورا" کہلاتا ہے، اس کو پگھلا کر دوبارہ لوہا بنایا جاتا ہے۔ پچھلی ربع صدی میں درجنوں بورا خریدنے والوں سے واسطہ رہا لیکن اتنے عرصے میں صرف ایک شخص ایسا ملا جس نے کبھی چوری یا دھوکہ دہی کی کوشش نہیں کی۔ سو اس سے ایک عرصہ واسطہ رہا۔

ایک روز ہم نے پوچھا بھائی آپ دیگر تمام بورے والوں کے برخلاف انتہائی دیانتداری سے اپنا کام کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب تھا۔ جوان بیٹے کی موت۔ کہتا پہلے میں بھی ان جیسا ہی تھا بلکہ چوری اور دھوکہ میں ان سب سے آگے تھا۔ مگر میرا اکلوتا جوان بیٹا موٹر سائیکل حادثے میں آناََ فاناً فوت ہو گیا۔ وہ حادثہ میری زندگی میں انقلاب بن کر آیا۔ اس کے بعد آج تک اپنی دانست میں کسی کو ایک روپے کا نقصان نہیں پہنچایا۔

نصف صدی پر محیط حیات گذشتہ میں صرف ایک دودھ فروش ایسا ملا جس سے ملاوٹ کا شکوہ نہیں ہوا۔ ایک روز اس سے بھی ہم نے پوچھ لیا کہ بھائی واحد تم ہو پوری بستی میں خالص دودھ فراہم کرتے ہو۔ ملتا جلتا جواب ملا۔ کہتا جان سے پیاری بیٹی کے سانحہ ارتحال نے انداز تخیل بدل کہ رکھ دیا ہے۔ پہلے جو ہوا خدائے بزرگ و برتر سے معافی کی التجا ہے آئندہ زندگی بھر ملاوٹ اور دوسروں کی حق تلفی سے اجتناب کا وعدہ ہے۔

معروف کرکٹر سعید انور کی بیٹی کی وفات ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنی۔ ایسی بہت سی انفرادی مثالیں آپ کی مشاہدہ میں بھی آئی ہوں گی کہ کسی سانحہ، کسی حادثہ نے لوگوں کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ اجتماعی معاشروں میں بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ انقلاب فرانس سے آغاز تحریک آزادی امریکہ تک تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے عبارت ہے۔

حیطہِ یاداشت میں ان واقعات کو دہراتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اس قدر بڑا اور خوفناک یہ سیلاب جس نے ہزاروں انسانوں کی داستان حیات کو تہہ و بالا کر دیا۔ کیا اتنا بڑا حادثہ نہیں ہماری زندگیوں کا "ٹرننگ پوائنٹ" بن جائے کہ ہم بھی غلامی اور بےبسی کی اس زندگی سے چھٹکارے کا اعلان کر دیں۔

عزیزان گرامی کیا آپ نہیں جانتے یا لمبے بوٹ پہن کر سیلابی پانیوں میں ریاکاری کی تصویر بنے صاحب انتظام نہیں جانتے یا مشاہیر اغیار کی نقل ملابس کی شائق وہ قصر اقتدار کی ملکہ خوامخواہ نہیں جانتی، یا وطن عزیز کی سب سے بڑی معاشی جارحیت، صنعتوں کے قومیائے جانے کے منصوبہ کے خالق کی جماعت کے کوتاہ فکر، بد شہرہ مُتَبَنّیٰ ناآشنا ہیں۔

کیا اس گفتار کے غازی وہ حسین و فتین کو جو سالہا سال سے ایک ہی نوحہ کی تکرار میں لگا ہے کو اپنے چار سالہ دور اقتدار میں بھی کسی نے نہیں بتایا۔ کیا منبع طاقت کے سالار لٹھ بردار اور اس کے عقل کل سالاران اصل و دور نابلد ہیں، کہ اس ملک کا اس کے عوام کا مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ اگر نہیں جانتے تو جان لیں کہ مسئلہ سیلاب اور اس سے بے گھر ہوئے عوام نہیں، مسئلہ تباہ فصلیں اور سیلاب میں بہہ گئے مویشیوں کی نتیجے میں طاری بھوک بھی نہیں، مسئلہ امدادی سامان کی ترسیل میں تاخیر اور اس کی لوٹ مار تو ہے ہی نہیں۔

مسئلہ دھونس دھاندلی پر مشتمل یہ گلا سڑا نظام ہے۔ جو ان سب مسائل کی جڑ ہے۔ مسئلہ وسائل و اقتدار اور طاقت پر قابض بے حس سیاسی اور غیر سیاسی وڈیرے اور ان کی بد دیانتی اور بدنیتی ہے۔ مسئلہ معاشرتی ناہمواری ہے جو ان کو فائدہ دیتی ہے۔ مسئلہ عدالتی بے انصافی اور معاشی عدم استحکام ہے جس کا تسلسل باقاعدہ منصوبہ بندی سے دہائیوں سے اس لیے ٹوٹنے نہیں دیا جاتا کہ کہیں وطن عزیز میں موجود بے پناہ قدرتی وسائل کا رخ ہماری غربت کے خاتمے کا باعث نہ بن جائے۔

یاد رکھیں کہ بے حس سیاسی و غیر سیاسی وڈیروں کا یہ نظام قائم ہے آپ اور ہم بس متنفس اکائیاں ہیں، جن پر مصائب کا نزول ان کے لیے باعث مسرت ہے کہ اربوں ڈالر کی غیر ملکی امداد جو مل جاتی ہے۔ تو یہ کیوں چاہیں گے کہ آپ خوشحال ہو جائیں اور ان کے لگے بندھے وظائف اختتام کو پہنچ جائیں۔ جب تک ہم اپنی حالت پر بدلنے کا فیصلہ نہیں کرتے، جب تک ہم اپنی محرومیوں پر نوحہ کناں ہونے کی بجائے شعلہ بار نہیں ہوتے جب تک یہ امداد کے لئے پھیلے ہاتھ مسائل کے منصوبہ سازان کے گریبانوں تک نہیں پہنچ جاتے مسائل یونہی رہیں گے، سیلاب آتے رہیں گے، ہم ڈوبتے رہیں گے۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad