Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. To Chalein Turkey (8)

To Chalein Turkey (8)

تو چلیں ترکی؟ (8)

تکسیم سکوائر میں ضروری مٹر گشت کرنے کے بعد ہم استکلال بازار کی طرف چلے۔ یہ استکلال بازار بھی اصل میں عربی کا استقلال ہے۔ جس کا پرانا نام جادہ کبیر یعنی بڑا راستہ ہوتا تھا۔ سال انیس سو تئیس میں جادہ کبیر کو جادہ استکلال کا نام دیا گیا۔ جس کا اب مطلب تقریباً "شاہراہ آزادی" بنتا ہے۔ یہ استکلال بازار بھی تاریخی بازار ہے جو سلطنت عثمانیہ دور سے چلا آرہا ہے۔

قریب ڈیڑھ کلو میٹر لمبے اس بازار میں انیسویں اور بیسویں صدی کی عمارات بکثرت موجود ہیں۔ ان پرانی عمارتوں کو ہی بڑے روایتی مگر دلکش انداز میں سجا کر ان میں ریستوران، کپڑوں، کھلونوں اور تحائف کی دکانیں بنائی گئی۔ انارکلی سے کچھ زیادہ چوڑے اس بازار کے وسط میں ٹرام کی پٹری ہے۔ جس پر بہت خوب صورت سرخ رنگ کی ٹرام چلتی ہے۔

اس ٹرام کا مقصد صرف سیر ہے یہ باقاعدہ سفر کے لیے نہیں۔ اس ٹرام کا اختتام ایسی سرنگ پر ہوتا ہے۔ جسے دنیا کی سب پرانی زیرِ زمین ریلوے کی سہولت مانا جاتا ہے۔ آپ استکلال بازار کی شہرت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ عام دنوں میں یہاں اوسطاً روزانہ دس لاکھ بدیسی اور دیسی سیاح آتے ہیں۔ یہ گلی چونکہ تکسیم سکوائر کے اپنے آغاز سے تھوڑی سی ڈھلوان کی طرف جاتی ہے۔

اس لیے جب تکسیم کی طرف کھڑے ہو کر آپ بازار کی طرف نظر دوڑاتے ہیں، تو آپ کو متحرک انسانوں کا ایک سمندر دکھائی دیتا ہے۔ چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے اس بازار میں ہی ترکی کے مشہور آئس کریم والوں کی بہت سی دکانیں ہیں، جن کی ویڈیوز آج کل سماجی ذرائع ابلاغ پر کثرت اور تواتر سے دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ تکسیم کی طرف یہ بازار نسبتاً کھلا ہے۔

اسی کھلے حصہ میں ہی زیادہ تر آئس کریم کی دکانیں ہیں۔ جیسے جیسے آپ سرنگ کی طرف بڑھتے ہیں بازار کی چوڑائی کم ہوتی جاتی ہے۔ ہم نے اس آئس کریم کا بہت شہرہ سن دیکھ رکھا تھا۔ سو دیکھتے ہی ایک دکان کی طرف بڑھے۔ پاکستان میں بہترین کون آئس کریم سے کم از پانچ گنا قیمت کی اس کون آئس کریم کی ساری قدر اس کی دکان کی بناوٹ بیچنے والے کے لباس اور گاہکوں کو دینے کے انداز میں ہی پوشیدہ ہے۔

ورنہ ذائقہ میں بالکل ایسا لگتا ہے، جیسے آپ میٹھی ٹھنڈی لئی کھا رہے ہیں۔ جی جی بالکل وہی لئی جس سے کتابیں جلد کرتے ہیں۔ تکسیم اور استکلال بازار کی تفصیلی سیاحت میں بہت وقت بیت گیا۔ خاص طور پر ہم نے تحائف کی دکانوں میں بہت وقت صرف کیا۔ ایک تو یہ کہ اشیاء بہت متنوع اور دیدہ زیب تھیں دوسرا مقصد یہ ادراک حاصل کرنا اور اس فلسفے کی پذیرائی کرنا تھا کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی مگر خوبصورت اشیاء۔

جن کی ہماری زندگی میں کوئی خاص ضرورت نہیں، کی بہترین انداز سے نمائش کرکے ہم انسانوں کو جذباتی طور ایک طرح سے مجبور کرکے ان میں ایسی اشیاء کے حصول اور خریدنے کا شوق پیدا کرسکتے ہیں۔ تحائف کی بیشمار دکانیں صرف یہاں ہی نہیں پورے استنبول ہی جابجا ہیں۔ ان دکانوں پر شیشے، چینی، پلاسٹک، لکڑی، چمڑے اور، پیتل وغیرہ سے بنی چھوٹی بڑی ہزاروں اقسام کی انتہائی دیدہ زیب۔

بلکہ دل موہ لینے والی اشیاء انتہائی خوبصورت اور سلیقہ اور سے نمائش کی گئی ہیں۔ ان اشیاء میں بطور خاص جیولری، پین، گھڑیاں، فوٹو فریم، ٹیبل لیمپ، کپ اور مگ، کی چین آدمیوں کے بٹوے، عورتوں کے پرس، کلپ قیمتی پتھروں کی نقول، اور ان سے بنی انگوٹھیاں، خوبصورت پینٹنگز اور خطاطی کے نمونے، پرندوں اور جانوروں کے چھوٹے مجسمے، مشہور عمارتوں کے شیشے اور دھاتوں کے منی ایچر۔

سگریٹ اور سگار کیس، ایش ٹرے، لکڑی اور ریزن سے بنے دیدہ زیب جیولری اور ٹشو باکس اور نہ جانے کیا کیا کچھ شامل ہیں۔ ظاہری خوبصورتی اور انداز نمائش کے سبب شاید ہی کوئی سیاح ایسا ہو، جو اپنے پیاروں کے لیے ان اشیاء سے ایک آدھا بیگ نہ بھرے۔ ان تحائف بیچنے والوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ان میں لچک بہت ہے۔ یعنی جس شے کے آپ سے سو لیرا مانگیں گے، اگر آپ ماہر خریدار ہیں تو پندرہ لیرا میں اپ کو دے دیدیں گے۔

بعد میں آپ سوچتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں اس نے ہمیں لوٹ لیا ہے یا ہم نے اسے۔ گمان فاضل ہے کہ ترکی کی آبادی کے بڑے حصے کا روزگار ان تحائف کی تیاری یا درآمد اور ترسیل وفروخت سے جڑا ہے۔ تکسیم سکوائر اور استکلال بازار کی سیاحت مٹر گشت اور تحائف کی تحقیق میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ سہ پہر ہو گئی۔ ہمیں بھوک کا احساس ہوا تو ایک ریستوران میں جاکر خالی جگہ تلاش کرکے بیٹھ گئے۔

ریستوران درجنوں قومیتوں کے بیسیوں لوگوں سے بھرا تھا۔ بلکہ صرف یہی نہیں اس بازار اور اس کے ارد گرد سبھی ریستورانوں کا بیشتر اوقات یہی عالم رہتا ہے۔ ہم نے جس کھانے کا انتخاب کیا اسے ترک ادانا کیباب کہتے ہیں۔ اور ہم ادانا کیباب کے ساتھ آئرن لسی کا آرڈر دینا بالکل بھی نہیں بھولے۔ ادانا کباب زیادہ تر بکرے کے قیمے سے بنائے جاتے ہیں۔

نمکین کباب میں مرچ بالکل بھی نہیں ہوتی۔ اس کباب کا حجم ہمارے یہاں کے کباب سے بڑا ہوتا ہے تقریباً دوسو گرام وزن کے ادانا کباب کو ایک لمبوترے سے نان کے اوپر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ کوئلوں پر سینکے ٹماٹر اور ہرا سلاد اس ڈش کے لازمی جزو ہیں۔ اپنی تمام تر رعنائی اور صحت بخش ترکیب کے باوجود مرچ کی عدم موجودگی میں ہم مرچوں کے رسیا ایک چسکورے پاکستانی کویہ اسقدر متاثر نہیں کرسکا کہ جس قدر توقع کی جا رہی تھی۔

مجبوراً ہم نے بیرے کو ہری مرچ لانے کو کہا اور ہری مرچ کا آرڈر کرنے کے لیے ہمیں اسے گوگل سے ہری مرچ کی تصویر نکال کر دکھانا پڑی۔ نہیں معلوم بیرا معصومیت میں یا مہمان نوازی میں یا پھر غصے میں ایک بڑی پلیٹ کٹی ہوئی ہری مرچوں کی لے کر آگیا۔ کم از کم اتنی مرچیں جتنی ہم ایک دیگ میں ڈالتے ہیں۔

Check Also

Hafiz Ki Jamaat

By Najam Wali Khan