Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. To Chalein Turkey (4)

To Chalein Turkey (4)

تو چلیں ترکی؟ (4)

کاؤنٹر پر بہت سے سلاد اور بہت سے کھانے خوبصورتی سے سٹین لیس سٹیل کے چم چم کرتے برتنوں میں لگے تھے۔ جن کے باہر ہر طرف شیشے کی دیواریں تھیں۔ ہم تو ظاہر ہے کہ ان سب کھانوں کے ناموں اور ذائقوں سے بالکل ناآشنا تھے تو پیچھے اس امام کے تھے، کہ جس نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے ہمیں ہمارے سپنوں کے طلسم کدہ میں پہلے دھوکے سے بچایا تھا۔

دو تین اقسام کا سلاد اور چار چھ اقسام کے کھانے تھے۔ میزبان نے پہلے چاولوں کا انتخاب کیا۔ موٹے چھوٹے چاول ابلے سے بنے تھے جن میں کیسری گاجریں اور شملہ مرچ چھوٹے چوکور ٹکروں میں کاٹ کر ملائی گئی تھیں، چاولوں کے ساتھ چائنیز ڈرائی بیف کی طرز پر بیف کے چھوٹے چھوٹے گول مگر باریک ٹکڑے براؤن رنگ کے گاڑھے شوربے کے ساتھ بنے تھے ڈال لیے۔ ہم نے بھی تقلید کرنا ہی موزوں جانا۔

وہ الگ بات ہے کہ اس شوربہ کی رنگت اور ہئیت دیکھ کر ہم بچپن کی اس وادی میں اتر گئے جہاں ہمیں ہمارے قرطاسِ یاداشت پر الرجی کے لیے دی جانے والی ایک دوا نقش ہے جو اسی گہرے بھورے رنگ کی ہوتی تھی اور دیکھنے میں بالکل ایسی لگتی جیسے چکنی مٹی کو پانی میں حل کیا گیا ہو۔ گو کہ وہ دوا ہمیں الرجی کے لیے دی جاتی تھی تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس دوا سے سخت الرجی تھی۔

اور اس الرجی کی وجہ ایک مہربان کا کیا گیا سنگین مذاق تھا۔ جو برسات کے دنوں میں اس نے ایک حکیم حاذق کو ہمارے گھر کے سامنے کھلی جگہ پر کیچوے پکڑتے دیکھ کر کیا تھا۔ فرمایا تمہاری وہ الرجی کی دوا ان کیچووں کو پیس کر بنائی جاتی ہیں۔ حالانکہ بڑے ہو کر جانا کہ حکیم صاحب صنف کرخت کے نازک مسائل کے حل کیلئے کیچوے اکٹھا کیا کرتے تھے۔

استنبول کی صاف ستھری یونیورسٹی کی آراستہ و پیراستہ کینٹین کے شوربے میں اس احتمال کو رد کرتے ہوئے ہم نے کسی طور وہ کھانا کھا ہی لیا۔ ہمارے میزبان سمجھے کہ ہم بیف کی وجہ سے کچھ ہچکچا رہے ہیں۔ تو اپنے طور پر انہوں نے اظہار محبت کے لیے بتایا کہ یہاں بڑا گوشت، بکرے کے گوشت سے دوگنا مہنگا ہے۔ بعد میں ہم نے بازار میں معلومات کے لیے دیکھا تو اس وقت وہاں بڑا گوشت تیس سے پینتیس لیرا اور چھوٹا گوشت اٹھارہ سے بیس لیرا فی کلو تھا۔ یاد رہے کہ ان دنوں لیرا پچاس روپے پاکستانی کے برابر تھا۔ جب کہ ہمارے ہاں بکرے کا گوشت ساڑھے پانچ چھ سو اور گائے کا گوشت ڈھائی سے تین سو روپے کلو تھا۔ سنتے ہیں کہ اور کئی ممالک میں بھی بڑا گوشت نسبتاً مہنگا ہوتا ہے۔

کھانے سے فارغ ہو کر ہم آفس میں گئے۔ میزبان کی چھٹی میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ ہم نے اس وقت کا مفید استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر ایک فیکٹری کا دورہ کرنے کا سوچا۔ ان سے رابطہ کرنے اور متعقلہ افراد کی دستیابی کا جاننے کے بعد ہم ٹیکسی لیکر وہاں پہنچ گئے۔ یہ فیکٹری پرانے کمپیوٹرز، لیہ ٹاپ اور موبائل فون کے سرکٹ بورڈز سے قیمتی دھاتیں جیسے سونا، چاندی، پلاٹینم اور پلاڈیم وغیرہ الگ کرنے کی مشینری بناتی ہے۔

سال دو ہزار چودہ میں ہم نے پاکستان میں مقامی طور موجود تانبے کی کچ دھات سے تابنہ نکالنے کے جدید ترین طریقہ کا ایک چھوٹا تجرباتی پلانٹ بنایا تھا۔ اس پلانٹ کی تیاری اور ڈیزائننگ میں شنگھائی کی ایک یونیورسٹی، آئرلینڈ اور چونگچنگ کی ایک کمپنی سے تکنیکی معاونت حاصل کی گئی تھی۔ تانبے کی کچ دھات میں عموماً تانبے کا ساتھ انتہائی قلیل مقدار میں سونا چاندی یا دیگر قیمتی دھاتیں ضرور ہوتی ہیں۔

ہم چاہتے تھے تابنہ نکالنے کے بعد باقی رہ جانے والے مواد سے وہ قیمتی دھاتیں نکالنے کا طریقہ اور مشینری اس کمپنی سے خرید لیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بات چیت انقرہ میں موجود ایک کمپنی سے بھی ہو چکی تھی۔ دیکھنا یہ تھا کہ دونوں میں کونسی کمپنی تکنیکی اعتبار سے بہتر اور قیمت میں مناسب پیشکش دیتی ہے۔ استنبول والی یہ فیکٹری کافی بڑی اور خوبصورت تھی بلکہ اب بھی ہے اور کافی ترقی کر چکی ہے۔

ان کی ویبسائٹ سے اندازہ ہوا کہ اب کی مشینری امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک کو جا رہی ہے، اس فیکٹری کے مالک اور تیکنیکی طور پر روح روا‍ں تعلیم کے لحاظ سے ایک آرکیٹیکٹ ہیں۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر پیچیدہ کیمیائی ٹیکنالوجی ایک آرکیٹیکٹ کیسے سیکھ سکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ میں حادثاتی طور پر اس شعبے میں آ گیا۔ پھر شوق اور لگن سے کثیر مطالعہ اور مختلف جامعات سے چھوٹے چھوٹے کورسز کر کے اس فن میں مہارت حاصل کی۔

انہوں نے اپنے زیر تکمیل کچھ پلانٹ اور مشینری دکھائی اور اپنے پراسیس کے متعلق ابتدائی معلومات بھی دیں۔ ان کی بنائی گئی مشینوں کا معیار بہت ہی اعلیٰ تھا یوں سمجھیں کہ بالکل یورپین سٹینڈرڈ سے مطابقت رکھتا تھا لیکن ان کی قیمتیں بھی ہمارے اندازہ سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ درمیانی استعداد کے ایک پلانٹ کی قیمت اس وقت انہوں نے ہمیں دو لاکھ ڈالر بتائی۔ بہر حال شام تک ان سے اور ان کے انجینئرز مختلف موضوعات پر بہت نفع بخش گفتگو ہوئی۔ اس سارے امر میں جو بہترین پہلو تھا وہ یہ کہ سب لوگ بہترین انگریزی بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ چونکہ یہ بات اب تک کے تجربے کے بالکل برعکس تھی سو باعثِ انسباط و اطمینان تھی۔

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry