To Chalein Turkey (14)
تو چلیں ترکی؟ (14)
پاکستان سے سات کمپنیوں نے بھی یہاں اپنی مصنوعات کی نمائش کے لئے سٹال لگا رکھے تھے۔ ان میں تقریباً سب ہی ٹریکٹر کے پرزہ جات بنانے والی فیکٹریاں تھیں۔ گرچہ ہمیں ابھی انجینئرنگ کے شعبے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، پھر بھی میڈ ان پاکستان کا مارکہ دیکھ کر جی بہت خوش ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں نمائش میں ترکی کی تین فیکٹریوں کا انتخاب کیا جن کو ہمارے خیال میں دیکھنا علم و تجربہ کے اضافے کے لئے بہت ضروری ہے۔
ان میں سے دو تو قونیہ جس کو مقامی لوگ "کوئیاں" بولتے ہیں، میں تھیں اور تیسری بحیرہ اسود کے کنارے کسی شہر میں تھی جس کا غیر معروف سا نام ذہن سے محو ہوگیا۔ تینوں کمپنیوں کے نمائندوں سے مختلف پرزوں کی بابت استفسار کرتے ہوئے ان کی فیکٹری کا دورہ کرنے کا شیڈول مرتب کر لیا تھا۔
نمائش کا آج آخری دن تھا۔ اور نمائش کے آخری روز، سہ پہر کے بعد ہی عموماً لوگ پیکنگ شروع کر دیتے ہیں۔ جس دوران نمائش اجڑے ہوئے میلے کا منظر پیش کرتی ہے۔ ہم سب نے نمائش کو لیکر قریب اپنے سارے اہداف حاصل کر لیے تھے سو اب یہاں سے جانا ہی بنتا تھا۔ رات نو بجے کروز ڈنر کا پروگرام تھا۔ اور نو بجنے میں ابھی خاصا وقت تھا۔ ہم نے استنبول کے معروف شاپنگ مال دیکھنے کا سوچا۔
می گروس Migros سوئٹزرلینڈ کے اشتراک سے ترکی میں میگروس کے نام سے ہی گروسری سٹورز کی بہت بڑی زنجیر بنائی گئی ہے۔ اب تو شاید اس وقت پورے ترکی میں اس کے دو ہزار سے زائد سٹور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو کڑور کے قریب لوگ اپنی روزمرہ گھریلو ضروریات می گروس سے پورا کرتے ہیں۔ ہم نے آج کی آخری منزل کروز ڈنر کے راستے میں پڑنے والا می گروس تلاش کیا اور پہلے میٹرو بس اور پھر تھوڑا سا سفر بذریعہ ٹیکسی کرکے وہاں پہنچ گئے۔
عالمی معیار کے بہت بڑے اور شاندار می گروس میں ہمیں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اشیاء کی قیمتیں پڑھنے کے بعد اس کو پچاس سے ضرب دینے کی خوب مشق پہلے سے ہوچکی تھی اب ہم اس حاصل ضرب کو وطن عزیز کی قیمتوں سے موازنہ کرنے میں بھی طاق ہوچکے تھے۔ گو یہ عادت وطن عزیز میں بھی ہے تاہم دوسرے ممالک میں خریداری کرتے ہوئے ہم اشیاء کی قیمتوں کے ساتھ یہ لازمی دیکھتے ہیں کہ ساختہ کس ملک کا ہے۔ ایسا کرنے کے پیچھے وہی حسرت ناتمام کہ کسی چیز پر تو میڈ ان پاکستان کی مہر نظر آ جائے۔ مگر ایسا خال ہی ہوتا ہے۔
ہمیں اچھے معیاری قلم جمع کرنے کا شوق ہے۔ جہاں بھی جائیں وہاں سے قلم ضرور خریدتے ہیں اور دوستوں کے لیے بھی ہماری نظر میں اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔ سو آج تک سماجی ذرائع پر بھی بنے بیشتر دوستوں کو قلم ہی تحفہ میں دیئے ہیں۔ میگروس سے ہم نے کچھ قلم اور کچھ چاکلیٹ خریدیں۔ بھولا بھائی نے بھی ہماری تقلید کی۔ شیخ صاحب البتہ پورے شدومد سے ہمیں سمجھاتے رہے کہ یہ فضول خرچی ہے۔
دو اصحاب کی اصلی اور دو کی "کھڑکیانہ خریداری" کے بعد ہم چار لوگوں کا یہ قافلہ جب سٹور سے نکلا تو اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ ہم کروز ڈنر کے لیے آبنائے باسفورس کے مجوزہ مقام تک پہنچے۔ گرچہ بکنگ پہلے سے کراوئی جا چکی تھی مگر ٹکٹ یہاں پہنچ کر خریدی گئی۔ جو پچاس یورو کی تھی۔ اب ہم نے جانا کہ حسنین بھائی نے ہمیں اس وقت کیوں منع کیا تھا۔ سفارت خانے والے آنجناب چالیس یورو نقد سکہ رائج الاسوقت کا چونا لگا رہے تھے۔ یہ سرکاری ملازمین بھی چونا لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
کروز ڈنر کے لیے مختص یہ کروز نسبتاً نیا سفید رنگ کا درمیانے حجم کا بحری جہاز تھا۔ جس کی پہلی منزل کو خوبصورتی سے بڑے سے میس کی شکل دی گئی تھی۔ اس میس کی چوڑائی قریب پینتیس فٹ اور لمبائی سو فٹ کے قریب رہی ہوگی۔ دونوں اطراف میں نسبتاً کم چوڑائی کی کھانے کی میزیں جن کی لمبائی دس فٹ ہوگی۔ قطار اندر قطار لگی تھیں۔ ہر میز کے دونوں طرف چھ، چھ کرسیاں تھیں۔ اور دونوں میزوں کے درمیان پندرہ فٹ کا فاصلہ ہوگا۔ یوں لمبائی کے رخ بارہ چودہ میزیں ہر رو میں تھی کل مل کوئی ڈیڑھ سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اور ہال میں ایک بھی نشت خالی نہ تھی۔ ہمارے لیے مخصوص نشت بائیں طرف سامنے سے تیسری تھی۔
تمام لوگوں کے بیٹھ جانے کے بعد کروز کو ہلکی رفتار پر چلاتے ہوئے آبنائے کے درمیان میں لیجایا گیا تھا۔ میس کے چاروں طرف شیشے لگے ہوئے تھے جسے باہر پانی اور اور اس کے پار استنبول کی روشنیاں بہت ہی زبردست نظارہ پیش کر رہیں تھیں۔ کھانا پیش کر دیا گیا۔ ایک سفید چینی کی ٹرے میں درمیانے سائز کی ایک مچھلی مکمل، بھاپ میں پکائی ہوئی ساتھ کچھ سلاد اور ایک سوڈا کی بوتل۔ مچھلی کا انتخاب ہم نے بکنگ کرواتے وقت خود کیا تھا۔
دوسرا انتخاب مرغ کا تھا۔ مرغ والوں کو دو سٹیک، سلاد اور سوڈا ملا تھا۔ پچاس یورو آج کے لحاظ سے سولہ ہزار بنتے ہیں سولہ ہزار میں عام حالات میں آپ کو آدھا کلو مچھلی اور ایک سوڈا ملے تو شاید آپ نالش کرنے کا سوچیں۔ مگر یہ تھا استنبول کا مشہور کروز ڈنر جہاں ڈنز صرف علامتی ہے۔ اصل قیمت تو کھانے کے بعد ہونے والے ہنگام ہائے خرافات کی تھی جس سے ہم اب تک بالکل بھی نابلد تھے۔