To Chalein Turkey (12)
تو چلیں ترکی؟ (12)
مگر وہ کمرہ بھی کیا تھا بس چارپائیوں یا آپ بیڈ کہہ لیں، کی لمبائی سے ڈیڑھ کو انچ بڑا ہوگا۔ دونوں طرف بیڈ دیواروں کے ساتھ لگائے گئے تھے جبکہ درمیان میں چھوٹا سا دروازہ تھا، دروازے کے سامنے دونوں بستروں کے درمیان چھوٹا سا لکڑی کا میز رکھا تھا۔ جبکہ کمرے سے باہر جو تنگ سی بالکونی تھی اس میں دائیں طرف ایک ایسا ہی اور کمرہ تھا جس کے اختتام پر دونوں کمروں کے رہائشیوں کے لیے مشترکہ باتھ روم تھا۔
کمرے کی اونچائی اتنی تھی کہ اگر چھت میں پنکھا لگا ہوتا تو اور چل بھی رہا ہوتا تو وہ کسی بھی اوسط قد کے انسان کے کندھوں تک چپس بنا سکتا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ دونوں بستروں کے درمیان واقع وسیع و عریض میدان میں تیسرے شریف آدمی کے لیے میٹرس ڈال کر "باعزت" رات بسر کرنے کا بندوبست بھی کردیا گیا تھا۔ اس نے شرافت سے احتجاج بھی کیا تو شیخ صاحب نے بچت کی اہمیت اور فضیلت پر ایک پرمغز لیکچر اسے پلا دیا۔ ان کا ایسا ماننا تھا کہ اکیس یورو میں یہ شاہی رہائش گاہ ہم کو بالکل مفت پڑ رہی ہے اور ہمیں اس عظیم و ارزاں دریافت پر ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
بہرحال سات یورو فی کس میں ہم نے رات بسر کی۔ صبح ناشتے میں بھی مکان مالک بڑھیا نے اختصارالوسائلی کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ عش عش کر اٹھے۔ تین انچ مربع کا ایک سلائس فی کس ایک ابلا ہوا انڈہ جو غالباً لالی یا فاختہ سے تھوڑے بڑے کسی پرندے کا تھا، کیونکہ حجم سے وہ کسی طور بھی، بی مرغی کا انڈہ نہیں لگ رہا تھا۔ گمان فاضل ہے کہ اگر پنجاب کی مرغی اس حجم کا انڈہ دے تو اس کی دیورانی اور جیٹھانی ہی اسے طعنے دے دے کر کڑک ملنے پر مجبور کر دیں۔
اور چائے جس کپ میں دی گئی اس سے تھوڑے سے بڑے کپ وطن عزیز کے بچے کھیلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ البتہ پنیر اور جام اگرچہ کم ہی تھا لیکن بہت اعلیٰ معیار کا تھا۔ ہمیں بہرحال یہ یقین ہوگیا تھا کہ مکان مالکن بڑھیا شیخ صاحب کے ہی کسی ترکی قبیلے کی چشم و موم بتی تھی اور اس کا نام پتہ بھی شیخ صاحب کے ابا خاندانی علم کفایت شعاری کے ہمراہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے آ رہے ہوں گے۔
ناشتہ کے بعد ہم لوگ تیار شیار ہو کر نمائش کی طرف چل دیے۔ ہمارے شیخ صاحب بھی مستند انجینئر ہیں اور دوسری نسل ہیں جو فیکٹری چلا رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے اضافہ یہ کیا ہے کہ انہوں نے انجینئرنگ کی مصنوعات برآمد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ باہر کے ملکوں بطور خاص ہالینڈ سے انجینئرنگ کی مصنوعات کے آرڈرز لیتے ہیں اور داروغہ والا کی مختلف صنعتوں سے تیار کروا کر باہر بھجواتے ہیں۔ شروع میں انہوں نے بہت مسائل کا سامنا کیا بہت سا نقصان بھی کیا لیکن اب اللہ کے فضل سے ان کا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ اس نمائش میں ان کا مقصد وہاں دنیا بھر سے آئے لوگوں کو اپنے کام کا تعارف کروانا تھا۔
اب دیکھیں کہ ان کی شیخانہ صلاحیتیں کس طرح دوسروں سے انہیں ممتاز کرتی ہیں۔ ساری دنیا سے لوگ وہاں چار پانچ ہزار ڈالر کا سٹال لیکر اور اپنی مصنوعات اور فیکٹری ملازمین کے کرائے بھاڑے بھر کر آئے تھے جبکہ شیخ صاحب صرف ایک بوری میں اپنے وزٹنگ کارڈ اور کمپنی کے تعارفی بروشرز لیکر تشریف لے آئے۔ اب وہ ہر سٹال پر جاتے ان کے مینجر یا مجاز شخص کا پوچھتے، اس کے پاس جاتے اور بڑی معصومیت سے پوچھتے do you import any thing from India or China۔ کیا آپ بھارت یا چین سے کچھ درآمد کرتے ہیں۔ اگر ان کا جواب ہوتا ہاں تو ان کو بتاتے کہ ہم بھی ویسی ہی اشیا آپ کو ان سے ارزاں فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کہتے نہیں تو ایک کارڈ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ اور آگے بڑھ جاتے۔ اسی طرح بھارت اور چین کا ورد کرتے ہم نے آدھی نمائش دیکھ لی۔
پاکستان کے وفد میں ایک صاحب گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے تھے، اور اپنے شریف آدمی کے کچھ کچھ شناسا تھا۔ وہ وہاں اکیلے گھوم رہے تھے۔ جب ہم سے ملاقات ہوئی تو وہ ہمارے ساتھ ہی ہو لیے۔ ان کا ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق اشیاء کا کاروبار تھا، زمینی فون، کارڈ لیس فون، دفتری ٹیلی فون ایکسچینج وغیرہ دوسرے ممالک سے درآمد کرکے بیچتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں استنبول میں کسی بچوں کے ڈائپرز بنانے والی فیکٹری سے ان کی بات ہوئی ہے اور آج شام اس فیکٹری کو دیکھنے جانا ہے۔ ہمیں ایسا موقع خدا دے ہم نے کہا ہم بھی ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا سو ہم اب نمائش کے بعد ڈائپرز بنانے والی فیکٹری جا رہے تھے اس کے بعد حسنین صاحب کے ساتھ رات کا کھانا طے تھا۔