To Chalein Turkey (10)
تو چلیں ترکی؟ (10)
میسے فرینک فرٹ Messe Frankfurt صنعتی نمائشیں اور پروگرام کروانے والی دنیا کی سب سے ممتاز کمپنی ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں آٹو میکینکا Automechanika کے نام سے بطور خاص گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات کی نمائش کا اہتمام کرتی ہے۔ استنبول میں بھی یہ تقریباً ہر سال آٹو میکینیکا استنبول کے نام سے بہت بڑی صنعتی نمائش کا اہتمام کر رہی ہے جس میں دنیا بھر کی کمپنیاں اپنی مصنوعات نمائش کے لیے پیش کرتی ہیں۔ ہم جیسے چھوٹے ممالک کی برائے نام صنعتکاروں کے لیے ایسی نمائشوں میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔
سو بنیادی طور پر اسی آٹومیکینکا استنبول کے لیے ہم ترکی آئے تھے اور آج سے اس کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ صبح حسب معمول ہم مسکنوں کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد ان سے راستوں کی ہدایات لیکر چل دیے۔ ترکی کی مشہور زمانہ میٹرو بس جس کی پہلی نقل لاہور میں جنگلہ بس کے نام سے مشہور ہوئی، کے آخری سٹاپ سے دس منٹ کی پیدل دوری پر طیب فیئر اینڈ کنونشن سنٹر میں یہ نمائش منعقد کی جا رہی تھی۔
استقبالیہ پر بہت رش تھا۔ تمام مندوبین کے لیے تعارفی کارڈ بنائے جا رہے تھے جن پر مندوب کا نام اور ملک کا نام جلی حروف میں پرنٹ کیا جاتا اور اس کارڈ کو نیلی کسی قدر چوڑی ریشمی سی ڈوری کے ساتھ گلے میں لٹکانا ضروری تھا۔ ہماری کارڈ بنانے کی باری آئی تو خوش شکل کمپیوٹر آپریٹر نے انگریزی نما زبان میں نام پوچھا ہم نے بتایا احمد۔ ایڈرس اگلا سوال اس نے میکانکی انداز میں پوچھا۔
ہماری پہلی فیکٹری لیبیا کالونی میں ہے۔ ہم سے کوئی ایڈریس پوچھتا تو میکانکی انداز میں بنا سوچے سمجھے کہتے لیبیا کالونی داروغہ والا لاہور۔ جب کمپیوٹر والی بی بی نے ایڈریس کہا تو ہمارے کمپیوٹر نے وقت اور توانائی ضائع کیے بنا کمپیوٹر کی ایڈرس والی کمانڈ آن کر دی۔ ہم نے رٹا رٹایا جملہ دہرا دیا۔ لیبا کالونی داروغہ والا لاہور۔ اس پری وش نے صرف لیبیا سنا اور کارڈ پرنٹ کرکے ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم نے بنا دیکھے پہن لیا اور ہال میں داخل ہوگئے۔
بہت بڑے اور بہترین سبھاؤ والے عالمی معیار کے طیب فیئر اینڈ کنونشن سنٹر داخل ہوتے ہی سٹالز کی زبردست ترکیب و ترتیب اور آرائش نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ ایک سے ایک زبردست سٹال ہر جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہنرمندی کے شاہکار پرزہ جات۔ ترکی چین، کوریا، جرمنی فرانس ہالینڈ، سنگاپور ملیشیا بھارت اور پاکستان کی انجینئرنگ کی کمپنیوں کے سینکڑوں سٹال۔
ابھی ہم سب سے پہلے والے سٹال پر کھڑے ہوئے ان کی اشیاء کا جائزہ لے رہے تھے کہ سفید شرٹ اور چست جینز میں ایک جاذب نظر دراز قد استنبولی حسینہ ہماری طرف متوجہ ہوئی۔ اس نے بڑی بے تکلفی سے ہمارے گلے میں لٹک رہے تعارفی کارڈ کو پکڑ کر سیدھا کرتے ہوئے اعلان کیا، ویلکم احمد۔
او۔ یو آر فرام لیبیا، واٹ کین آئی ہیلپ یو۔ اور ہم نے بے اختیار کہا "ہیں جی"۔ فوراً حسینہ کے ہاتھ سے اپنا تعارفی کارڈ واپس لے کر خود پڑھا۔ احمد لیبیا ہی لکھا تھا۔ چلو شکر ہے۔ اگر اپنی قومی عادت کے ہاتھوں مجبور کوئی جوس کا ڈبہ کوئی چپس کا خالی پیکٹ سڑک پر پھینک دیا تو بدنام لیبیا ہی ہوگا، ہم نے ایک دم خرابے سے خیر اخذ کر لیا۔ بلکہ ہم نے تو یہاں تک سوچ لیا کہ جو ہمارے وفد کے دیگر ارکان آج پہنچنے والے ہیں ان سب کے تعارفی کارڈز پر بھارت لکھوا دیا جائے تاکہ ان کی تمام دیسی حرکات کا سارا اجر ہمسایہ ملک کو ایصال ہوتا رہے۔
(جاری ہے)