1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Soya Hua Mahal

Soya Hua Mahal

سویا ہوا محل

چین کا صوبہ شین جیانگ xinjiangجنوب مغربی چین کا آخری صوبہ ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس صوبہ کی سرحدیں پاکستان، بھارت، افغانستان، روس، تاجکستان، منگولیا اور کرغستان سے ملتی ہیں۔ آبادی لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے۔ جو زیادہ تر ایغور نسل کے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

سمندر سے بہت دور ملک کے انتہائی جنوب مغرب میں دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہونے کہ وجہ سے صوبہ شنجیانگ میں ملک کے دیگر علاقوں سے خام مال کی ترسیل بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اورپھر تیار مال کی درآمد کے لیے گودیوں تک رسائی مشکل، مہنگی اور وقت ضائع کرنے والا عمل ہے۔ یوں یہاں ابھی صنعتیں صرف اتنی ہی ہیں کہ جو مقامی ضروریات پورا کرسکیں یا زیادہ سے زیادہ جن کا مال زمینی راستے سے پاکستان یا دیگر ہمسایہ ممالک تک جاسکے۔

اب سوال یہ تھا کہ یہاں سے غربت کا خاتمہ کیسے ہو اور لوگوں کا معیار زندگی کیسے بہتر بنایا جائے؟ جبکہ مقامی طور پر زرعی اجناس، پھل اور مویشی پیدا ہوتے ہیں۔ تو سب سے پہلے لوگوں کو مقامی وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے گئے۔ شنجیانگ کا موسم اور زمین ٹماٹروں کی پیداوار کے لحاظ سے بہت اچھی ہے۔ سو حکومت نے یہاں ایشیاء کی سب سے بڑی شنجیانگ گواننگ ٹماٹو پروڈکٹس کمپنی بنا دی۔ اس کمپنی میں روزانہ قریب دس ہزار ٹن ٹماٹروں کو پیسٹ، پاوڈر اور کیچپ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

علاقے میں پیدا ہونے والا بیشتر ٹماٹر خرید کر عالمی معیار کے مطابق پراسیسنگ کرنے کے بعد، نہ صرف سارے چین میں فروخت کے لئے پیش کیا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس علاقے میں ہمارے ہاں مستعمل نان سے ملتا جلتا ایک خاص قسم کا نان بھی بنایا اور کھایا جاتا ہے۔ بلکہ جو لوگ چین جاچکے ہیں وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ چین کے طول وعرض میں شنجیانی ریستورانوں پر بھی یہ نان دستیاب ہوتا ہے۔ شنجیانگ کی انتظامیہ پر موجود حکمت میں، لوگوں نے دیکھا کہ مقامی لوگ اس نان بنانے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔

اور اس کی ممکنہ طور پر تاجکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں طلب بھی پیدا کی جاسکتی ہے، تو انہوں نے وہاں نان بنانے کا ایک انڈسٹریل پارک بنادیا ہے۔ اس نان انڈسٹریل پارک میں بالکل ہماری طرز کے بہت سے تندور اور بہت سے آٹومیٹک نان بنانے والے پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ اس نان انڈسٹریل پارک میں روزانہ پانچ لاکھ نان بنانے کی استعداد موجود ہے۔ جبکہ دوہزار سے زائد لوگوں کو بالواسطہ روزگار ملا ہے۔ صرف نومبر دوہزاراکیس میں یہاں سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نان دیگر ممالک کو برآمد کیے گئے۔ جن سے یقیناً لاکھوں ڈالر کا زرِمبادلہ بھی ہاتھ آیا ہوگا؟

جن ممالک کو یہاں سے نان برآمد کیے جارہے ہیں ان میں سر فہرست تاجکستان تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے علاقے گلگت میں بھی یہاں سے نان درآمد کیے جارہے ہیں۔ یہاں سادہ نان کے علاوہ تقریباً سو اقسام کے نان بنائے جاتے ہیں جن میں بادام والا، اخروٹ والا، سونف، دہی، پنیر، اور گلاب والا نان شامل ہیں۔ چین میں اشیاء برآمد کرنے کیلئے جو محکمانہ کاروائی ہوتی ہے، اس میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ لیکن نان کی چونکہ جلد ترسیل مطلوب تھی سو وہاں ایک حکم نامہ کے تحت، متعلقہ محکمہ کو پابند کیا گیا کہ وہ دو گھنٹے میں کاروائی مکمل کرکے اجازت نامہ دیں تاکہ نان جلد سے جلد اپنی منزل کی طرف روانہ ہوں۔

اب عالم یہ ہے کہ صبح بننے والے دوپہر میں اور دوپہر تک بننے والے نان شام تک دوسرے ممالک روانہ کردیۓ جاتے ہیں۔ اب مجھے بتائیں کہ نان بنانے اور بیچنے میں کونسا امر مانع ہے اور کونسی ٹیکنالوجی جو ہمارے پاس نہیں؟ فاٹا میں یا افغانستان بارڈر کے قریب جہاں سے تاجکستان اور وسط ایشیا کی ترسیل ممکن ہے، نان پارک کیوں نہیں بناسکتے؟ ہمارے پاس شاید قوت فیصلہ نہیں ہے۔ یا عزم کی کمی ہے۔ حکمت بھی کم ہے۔ اب دیکھیں ہم اوسطاً سالانہ دولاکھ ٹن کینو برآمد کرتے ہیں۔ یہ سارا کینو سرگودھا اور اس کے نواح میں موجود کینو پراسیسنگ فیکٹریوں سے کراچی کے لیے روانہ ہوتا ہے۔

کینو ریفریجریٹڈ کنٹینرز جنہیں عرف عام میں ریفر کنٹینر کہتے ہیں، میں چار سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر بھیجا جاتا ہے۔ دولاکھ ٹن کینو کیلئے قریب آٹھ ہزار ریفر کنٹینرز سرگودھا سے کراچی جاتے ہیں۔ جن میں چار گھنٹے میں درجہ حرارت چار سے آٹھ، نو درجہ تک بڑھ جاتا ہے۔ پھر انہیں کسی جگہ روک کر ریفر کنٹینر میں موجود نظام کو بجلی فراہم کرنا پڑتی ہے۔ چار ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر ہونے پر دوبارہ سفر شروع کیا جاتا ہے۔ پھر درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ پھر رکتے ہیں۔۔ علی ھٰذالقیاس، دو دن کا سفر چار پانچ دن میں طے ہوتا ہے۔ کوالٹی کا نقصان الگ۔ اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے۔

حالانکہ کتنا آسان ہے کہ سرگودھا سے کراچی تک کینو ٹرین چلائی جائے، جس میں سب ریفر ویسل کو بجلی مہیا ہو۔ دوسرے دن بنا دقت سارا مال کراچی پہنچے۔ ریلوے کا خسارہ بھی کم ہو اور برآمد کنندگان کا وقت بھی بچے۔ مگر کون سوچے یہاں؟ کون کرے فیصلے؟ ہم تو جیسے سوئے ہوئے محل کے مکین ہیں۔

Check Also

Pakistani Muashray Ke Nikamme Mard

By Khadija Bari