Shutar Murghi Ka Anda
شتر مرغی کا انڈہ
انڈہ پہلے آیا یا مرغی، سنتے ہیں کہ سیانے صدیوں سے اس مخمصے میں ہیں۔ سیانوں کی ایسی حرکتیں دیکھ کر بعض اوقات تو لگتا ہے، ایام ہائے گذشتہ میں سیانے کی ڈگری بھی کسی آنلائن یونیورسٹی سے حاصل کی جاتی تھی۔ یا یہ گمان ہوتا ہے کہ کسی کو سیانا قرار دینے کا نظام اس دور میں بھی افسرشاہی کے پاس رہا ہو۔ حالانکہ سادہ سی بات ہے اگر انڈہ پہلے آیا تو اس پر بیٹھا کون تھا۔ ویسے کسی سیانے کاقول ہے کہ وہ سیانا ہی کیا ہوا جو سادہ سی بات کو سادہ رہنے دے۔ کہ کسی سادہ بندہ کی سمجھ میں آجائے۔ اور یہ بھی کسی سیانے نے ہی کہا ہے کہ جب تک سادہ سی بات کو مشکل نہ کردیں سادہ لوگ دھیان ہی نہیں دیتے۔
سیانوں نے انڈوں کی بابت تاریخ میں اور بھی کئی خورد برد کررکھے ہیں۔ مثال کے طور پر مرغی، مچھلی، بطخ، فاختہ، کوئل یہاں تک کہ کوی اور کبوتری تک کے متعلق مشہور کررکھا ہے کہ وہ یعنی مادائیں انڈے دیتی ہیں۔ انہیں سیتی ہیں، اور جب بات آتی ہے شترمرغ کی تو سب کہتے ہیں شترمرغ کا انڈہ۔ کبھی کسی سیانے کو توفیق نہیں ہوئی کہ تردیدی بیان دے کہ نہیں بھائی یہ بھی شترمرغی کا انڈہ ہے۔ کبھی سنا پڑھا ہو تو کہیے۔ اصل میں یہ سیانے مان کر ہی نہیں دیتے کہ کوئی مادہ اتنا، بڑا، کارنامہ بھی سر انجام دے سکتی ہے۔ سیدھا سیدھا صنفی امتیاز کا معاملہ ہے۔ اور وجہ اس کی شاید یہی کہ سیانوں نے آج تک کسی عورت کو "سیانی" کی ڈگری جاری ہی نہیں کی۔ خود سوچیں اگر ہوتی تو لوگ یوں نہ کہتے، کسی سیانی کا قول ہے،۔ گویا صنفی امتیاز کا ایک اور کیس۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں تحریک حقوق نسواں کے ساتھ ہیں۔ بلکہ صلاح ہے کہ آئندہ یوم نسواں کے احتجاج میں دو کتبے اس بابت بھی شامل کریں۔ جن پر لکھا ہو "شترمرغی کوعزت دو" اور "میں آپ سیانی" وغیرہ وغیرہ۔۔
قابل خرگوشوی صاحب کا مانناہے کہ انڈہ ایک مکمل غذا ہے۔ اس میں، نشاستہ، لحمیات، حیاتین، اور نمکیات کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو انسانوں کیلئے زبردست مفید ہے۔ ان کا نکتہ نظر ہے کہ اس قیمت میں کوئی دوسرا ایسا زبردست غذائی پیکیج ملنا ناممکن ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے اسکا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ مایوس دقیانوسی کو مگر اختلاف رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جناب یہ تو آپکا نکتہ نظر ہے مگر کبھی انڈے کو نالائق طالبعموں، پاکستانی بلے بازوں یا مرغیوں کے نکتہ نظرسے بھی دیکھ لیا کریں۔ ہوسکتا ہے انکے لئے یہ زیادہ فرحت بخش تجربہ نہ رہا ہو۔
گو بہت سے دکاندار اور اساتذہ بھی بکثرت انڈے دیتے پائے گئے ہیں، پھر بھی مگر زیادہ انڈے پرندے ہی دیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو شاید یہی ہے کہ وہ اگر انڈے نہ دیں تو پھر کیا دیں۔ اب ظاہر ہے وہ قرض تو دینے سے رہے۔ اور بالفرض اگر وہ انڈوں کی جگہ قرض دینا بھی شروع کردیں تو بنک والے پھر کیا دیا کریں گے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ بنک والے انڈے نہیں دے سکتے۔ اسی طرح اگر پرندوں سے انڈے دینے کی ذمہ داری لیکر جانوروں کو تفویض کردی جائے تو بھی بڑی گڑبڑ ہوگی۔ سوچیں وہ انڈہ کس شے سے بنا ہوگا جس پر ہتھنی بیٹھ کر سیتے گی۔ کم از کم اتفاق سٹیل کا۔ اور اتفاق سے اتفاق تو اٹھ ہی گیا ہے دنیا سے اور اتفاق سٹیل بھی۔ سائنسدانوں کا ویسے خیال ہے کہ ڈائنوسار انڈے ہی دیا کرتے تھے۔ اسی لیے ختم بھی تو ہوگئے نا، یہ ہمارا جوابی خیال ہے۔ یقیناً آدھی ڈائنوسارنیاں انڈے دیتے ہوئے مرجاتی ہوں گی اور آدھے انڈے انکے کے بیٹھنے سے ٹوٹ جاتے ہوں گے۔
مرغی کا انڈہ روزانہ کھانے سے انسان کا رنگ لال سرخ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں لحمیات اور حیاتین ہوتے ہیں۔ مگر جو انڈے اساتذہ دیتے ہیں۔ ان میں نہ لحمیات ہوتے ہیں نہ حیاتین۔۔ پھر بھی جسکو ملتا ہے اس کے پہلے کان لال ہوتے ہیں، پھر چہرہ، پھر ہاتھ اور پھر تشریف۔ اور یہ استاد بھی بڑے استاد ہوتے ہیں۔ جس کو انڈہ دیتے اسی کو پھر مرغا بھی بناتے ہیں۔ یوں تعلیم کے زور پر ثابت کرتے ہیں کہ انڈے اور مرغ کا تعلق مضبوط ہی نہیں کثیر الجہت بھی ہے۔ انڈوں کی ایک اہم قسم ہوتی ہے گندا انڈہ۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سب انڈے پہلے اچھے ہوتے ہیں تاہم ان میں سے کچھ آہستہ گندے انڈے بن جاتے ہیں۔ اس عمل میں خراب ماحول بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ گندے انڈے زیادہ تر کیک اور حکومت بنانے کے کام آتے ہیں۔
کہتے ہیں انڈہ باہر سے ٹوٹے تو موت اور اندر سے ٹوٹے تو حیات کا مظہر ہے۔ اپنی طرف سے بڑی فلسفیانہ بات کی ہے۔ حالانکہ دانت بھی اگر باہر سے ٹوٹے تو موت ہی پڑتی ہے۔ نہیں یقین تو کسی سے تڑوا کردیکھ لیں۔ سائنسدانوں نے کھوج لگایا ہے کہ انڈے کے چھلکے میں کیلشیم ہوتا ہے۔ اور ہم نے کھوج لگایا کہ جس میں چیز میں کیلشیم کی زیادتی ہو وہ سفید ہوجاتی ہے جیسے انڈے کے چھلکے، دانت، ہڈیاں اور چونا وغیرہ۔ ادھر حکیم درمیانے خاں صاحب کا کھوج ہے کہ لڑکیوں کا زیادہ سفید رنگ کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دیسی مرغی کے انڈے ویسے سفید نہیں ہوتے۔ حالانکہ ان میں کیلشیم کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ دیسی لوگوں میں البتہ تعلیم اور اعتماد کی کمی ضرور ہوتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دیسی مرغی سال میں سو سے ڈیڑھ سو انڈے دیتی ہیں اور ولائتی تین سو سے زائد۔ لیکن ماہرین یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ کمبخت سارے دیسی ہر کام میں پیچھے کیوں ہیں۔
حکیم درمیانے خاں صاحب سے ہم نے ایک روز پوچھا۔۔ کہ یہ اطباء بھی شاید سیانے ہی تھے۔ کہ اچھے بھلے مرغی کے انڈے کو "بیضہ مرغ" بنادیا۔ مجال ہے جو کسی حکمت کی کتاب میں مرغی کا انڈہ لکھا ہو۔ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بنی نوع مرغی کے ساتھ زیادتی ہے۔ کہ مرغ کاہل نے تو آج تک بانگ کے سوا کچھ دیا ہی نہیں۔ کہنے لگے بھئی جب متاثرہ فریق کو اعتراض نہیں تو پھر آپ کون ہوتے ہیں احتجاج کرنے والے۔ انڈے سے زیادہ انسانوں کے لیے کیا چیز مفید ہے۔ ہم نے اگلا سوال پوچھا۔۔ کہنے لگے ابلا ہوا انڈہ۔