Noha Garon Ki Majburi
نوحہ گروں کی مجبوری
ہم نوحہ گروں کو ایک اور موقع ایک اور موضوع مل گیا۔ پھر سے نوحہ گری کے جوہر دکھانے میں مشغول ہیں۔ ایک سے ایک بڑھیا۔ ایک سے ایک دردناک نوحہ۔ کیا ظلم پہلی بار ہوا ہے۔ یا نوحے پہلی بار کیے جارہے ہیں۔ نہیں نا۔ تو اسی لیے ان کی قدروقیمت انکی اثر پذیری بڑھانے کے لئے بڑے جتن کرنا پڑرہے ہیں، نئے الفاظ نئے محاورے تلاش کیے جارہے ہیں۔ اصل میں ہمیں ان نوحوں کی ہی حاجت ہے۔ انصاف کی نہیں۔ ہم خودترحمی کے مارے لوگ نوحوں سے آسودگی اور درد سے لذت کشید کرتے ہیں۔
اگر ہمیں انصاف کی حاجت ہوتی تو ہم اس کیلئے آواز اٹھاتے۔ تسلسل کے ساتھ پورے زور کے ساتھ۔ لیکن انصاف ہمیں چاہیے ہی نہیں۔ ہم میں سے کسی کو انصاف کا یارا نہیں۔ کیونکہ انصاف کی زد میں ہم سب آتے ہیں۔ کیونکہ ظالم ہم سب ہیں اور مظلوم بھی۔ پچھلے ماہ جب بااثر قاتل کو باعزت بری کیا گیا، اس سے پچھلے ماہ جب کسی شاہزادے کا برہنہ دریدہ بےجان جسم کھیتوں سے ملا اور اس سے پہلے، اوراس سے بھی پہلے کے تمام سانحات پر ہم برساتی مینڈکوں کی طرح اپنی اپنی بلوں سے ایسے ہی نکلے تھے اور چند روز نوحے ٹراتے رہے تھے۔ کیونکہ تب بھی ہمیں ان سے سکون ملا تھا اپنے اوپر اپنے بچوں پر ہوئے ظلم کی داستان سے تب بھی ہم نے لذت کشید کی تھی۔
کون نہیں جانتا کہ خرابی نظام میں ہے۔ کسے نہیں خبر کہ یہ متعفن نظام عدل وانصاف ہی وہ ڈائن ہے جو آئے روز ہمارے بچوں کا لہو پیتی ہے۔ کون واقف نہیں یہی گلا سڑا نظام عدل ہی اصل غنڈہ ہے جس نے ہزاروں بیٹیوں کی عصمت کی ردا چھینی ہے۔ کون بھول میں ہے کہ بیوہ کی جائیداد اور یتیم کے مال پر قابض پٹواری یا وڈیرہ نہیں، یہ نظام ہے۔ تو کس کس نے آواز اس اصل مجرم کے خلاف اٹھائی ہے۔
ہم نوحہ گر تمہیں نہیں بتائیں گے کہ جرائم ختم کیوں کر ہوں گے۔ کیونکہ ہم میں سے بیشترتو وہی ہیں جو کل تک اپنے اپنے ان آقاؤں کی ہر اس امر کی تاویل پیش کررہے تھے۔ جو عدل فراہم کرنے کی بجائے اسے پامال کرنے کی راہ ہموار کررہا تھا۔ ہم سے میں سے آدھے وہ ہیں جن کے آقاؤں نے باری باری دہائیوں یہاں حکومت کی مگر ظلم و بربریت کی اس نظام کو بدلنے کی بجائے اس کی آبیاری کی۔ اور آدھے وہ ہیں جن کو لگتا ہے کہ ہمارے لاڈلے کو تو ابھی صرف دوسال ہوئے ہیں لہٰذا اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں۔
تمہیں جاننا ہے کہ جرم کیسے ختم ہوتے ہیں تو خود جانو۔ جاؤ تاریخ پڑھو۔ تم جان جاؤ گے کہ ایسے معاشرے کیونکر وجود میں آتے ہیں کہ جب، صنعا سے حضرموت تک زیورات سے لدی اکیلی عورت اونٹ پرجاتی ہے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والا کوئی نہیں۔ جان جاؤگے کہ ایسے نظام کیلئے اس معاشرے کے منصفوں کو انصاف کا بھاری طوق اٹھانا پڑتا ہے۔
جرم تب ختم ہوتے ہیں جب دنیا کا سب سے برگزیدہ منصف ہر زور آور کی سفارش کو یہ کہہ کر رد کردیتا ہے کہ محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔ جرائم کا خاتمہ تب ہوتا ہے جب خلیفہ وقت عدالت میں اپنے لگائے ہوئے قاضی کے سامنے سر جھکائے آنکھیں نوائے پیش ہوتا ہے۔ معاشرے جرائم سے پاک تب ہوتے ہیں جب حاکم وقت کسی گورنر کو یہ کہہ کر معزول کردے تمہیں جو تحائف ملتے ہیں وہ بیت المال کی امانت ہیں ان پر تمہارا حق نہیں۔ معاشرے آئی جی بدلنے سے نہیں نظام بدلنے سے محفوظ ہوتے ہیں۔
معاشرے محفوظ تب ہوتے ہیں جب امیر اور غریب کیلئے ایک قانون ہوتا ہے۔ جب وزیراعظم کا گاڑی میں بیٹھ کر اخبار پڑھنے پر چالان ہو اور وہ اگلے دن اس چالان کرنے والے کو گھر نہ بھجوا دے۔ ایسے معاشرے جرائم سے کبھی پاک نہیں ہوسکتے جہاں منی لانڈرنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی حسینہ تو آزاد گھوم رہی ہو اور اسے پکڑنے والی رات کی تاریکی میں قتل کردیا جائے۔ یاد رکھو جب تک ہم حکمرانوں کو باور نہیں کروادیتے کہ ہمارا اب انصاف کے بغیر گذارہ نہیں تب تک انصاف کا یہی بوسیدہ نظام ہمارے اوپر مسلط رہے گا اور جب تک یہ نظام ہے صرف نوحے لکھے جاسکتے ہیں۔ آؤ اگلے نوحے کیلئے نئے الفاظ نئے محاورے تلاش کریں۔