Nikki Jayi Khair Andeshi
نکی جئی خیراندیشی
لاہور میں ٹریفک پولیس کی طرف سے ہیلمٹ کے استعمال کو یقینی بنایا گیا ہے۔ سخت گرمی بلکہ حبس میں ہیلمٹ کے اندر پانچ منٹ میں سر پسینہ سے شرابور ہوجاتا ہے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ہیلمٹ سر پر پہننے کے بجائے سر پر ٹکائے ہوئے دیکھا ہے۔ جو حفاظتی نکتہ نظر سے بالکل بے مقصد ہے۔ ایسی حالت دیکھ کر حقیقت میں لوگوں پر ترس آتا ہے خاص طور پر ان نوجوانوں پر جن کا روزگار ہی سارا دن موٹرسائیکل چلانے سے وابستہ ہے۔۔
گمان فاضل ہے جنہوں نے ہیلمٹ ایجاد یا ڈیزائن کیا ہوگا ان کے ہاں شاید گرمی کا اتنا مسئلہ نہیں رہا ہوگا سو انہوں نے اس بابت کچھ نہیں کیا۔ اور اپنے لوگوں کی غوروفکر اور نیا سوچنے کی صلاحیت سے آگاہی تو ہے ہی۔ سو ہم نے سوچا کہ اس بابت بھی اپنا فرض ادا کردیں۔
عزیزان گرامی۔۔ ہیلمٹ کی اندرونی طرف جو تھرما پور یا پولی یوریتھین کی حفاظتی تہہ ہوتی ہے اگر اس کی اندرونی شکل ڈیزائن کے مطابق بنا دی جائے اور سامنے کی طرف ہیلمٹ میں پانچ سات سوراخ کردیے جائیں تو دوران سفر سارے سر کو یکساں ہوا بہم رہے گی اور پسینہ کی جگہ سکون اور طمانیت کا احساس رہے گا۔ ہیلمٹ کی صنعت سے جڑے لوگ یا ہونہار نوجوان جو روزگار کے متعلق سوچ رہے ہیں ان کی اس بابت مکمل راہنمائی کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسے ہیلمٹ کہ جن میں بلیوتوٹھ ہینڈ فری لگی ہو جو جیب میں پڑے فون سے منسلک ہوسکے اور ڈرائیو کرتے ہوئے گفتگو میں آسانی کا سبب بن سکے، کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ کیوں کہ بایکیا، فوڈ پانڈا اور دیگر ڈلیوری بوائز جن کو ہروقت گاہکوں کو کال کرکے پتہ معلوم کرنا ہوتا ہے، بطور خاص اور عام لوگ بطور عام ہیلمٹ اتار کر یا ہیلمٹ میں فون گھسا کر زرو زرو سے ہیلو ہیلو کرنے کی کوفت سے بچ جائیں گے۔