Munfarid Tareen Ezaz
منفرد ترین اعزاز
قراقرم ہائے وے سے بابوسر ٹاپ کے لیے سڑک جہاں سے مڑتی ہے اسے چلاس گیٹ وے کہتے ہیں۔ اس مقام پر درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ٹھیک چالیس کلومیٹر کے بعد بابوسر ٹاپ پر سات ڈگری سینٹی گریڈ۔ گویا چالیس کلومیٹر اور ڈیڑھ گھنٹے کے مسافت پر تینتیس درجہ کا فرق، حیرت انگیز جغرافیہ۔
جی میں آئی کہ کیا ایسا کوئی اور بھی مقام دنیا میں ہوگا۔ جہاں اسی قدر یا اس سے ملتے جلتے فاصلے کے فرق سے اتنا زیادہ درجہ حرارت تبدیل ہوتا ہو۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔۔ اس کا جواب تھا ہاں، مختصر فاصلے پر درجہ حرارت کے نمایاں فرق کی کئی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ آپ نے چلاس اور بابوسر ٹاپ کے درمیان ذکر کیا ہے:
1۔ ڈیتھ ویلی سے ماؤنٹ وٹنی: کیلیفورنیا، امریکہ میں، ڈیتھ ویلی کے گرم صحرائی فرش سے چوٹی تک تقریباً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر درجہ حرارت 30 درجہ تک گر سکتا ہے۔ ماؤنٹ وٹنی کی، ملحقہ ریاستہائے متحدہ کی بلند ترین چوٹی۔
2۔ تبتی سطح مرتفع تا ہمالیہ: تبت اور نیپال میں درجہ حرارت 30° درجہ تک گر سکتا ہے جو کہ اونچائی والی سطح مرتفع سے برف پوش ہمالیہ تک تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
3۔ Atacama صحرا سے Andes: چلی میں، خشک اٹاکاما صحرا سے برف سے ڈھکے اینڈیز پہاڑوں تک تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر درجہ حرارت 25°درجہ تک گر سکتا ہے۔
جب تفصیلات دیکھیں تو علم ہوا کہ ڈیتھ ویلی میں آٹھ ہزار فٹ تک سڑک ہے۔ جبکہ اس سے آگے تئیس کلومیٹر کی ہائیکنگ ہے۔ باقی دونوں جگہوں پر کوئی راستہ موجود نہیں۔
گویا میری ناقص تحقیق کے مطابق ابھی تک روئے زمین پر دوسری کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کسی بھی زبردست سواری میں سوار ہوکر گھنٹے، ڈیرھ گھنٹے میں چالیس درجہ حرارت سے سات درجہ حرارت تک پہنچ سکیں۔ ہم نے آج تک اس زبردست سیاحتی نعمت کو دنیا پر آشکار ہی نہیں کیا لہذا ایک روپے کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا۔ دنیا پر تو دور کی بات ایک فیصد پاکستانیوں کو بھی یہ بات معلوم نہیں ہوگی۔
قدرت نے فیاضی میں کمی نہیں کی اور ہم نے نا اہلی میں کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مگر اہلیت کا سفر شروع کرنے پر ابھی فطرت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی یہ کہیں سے کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے۔۔ تو کیا کہتے ہیں اٹھائیں آج ہی پہلا قدم۔