1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Kya Aap Ne Manar e Jonban Dekha?

Kya Aap Ne Manar e Jonban Dekha?

کیا آپ نے مینار جنبان دیکھا؟

ایران کے شہر اصفہان میں ایک قدیم مقبرہ ہے، جو چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا۔ اسے مینار جنبان کہتے ہیں۔ قریب چھ مرلہ پر محیط یہ سادہ سی اینٹوں سے بنی ایک عمارت ہے۔ اس عمارت کے اگلی طرف تقریباً بیس فٹ بلند دو ستون ایستاده ہیں۔ ان ستونوں کی تعمیر کے دوران کچھ ایسا کام کیا گیا ہے کہ اگر کسی مینار کو تھوڑا زور سے آگے پیچھے کھینچیں تو وہ تھوڑا تھوڑا ہلنے لگتا ہے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ اگر ایک مینار کو ہلائیں تو دوسرا بھی ہلنے لگتا ہے۔

میناروں کی حرکت چونکہ بہت معمولی سی ہوتی ہے، لہذا ان کے ساتھ گھنٹیاں باندھی گئی ہیں تاکہ جب ان میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہو تو گھنٹیاں اس ارتعاش کو اعلان کی صورت میں تبدیل کرکے ہم تک پہنچادیں۔

آپ اصفہان کی عمارات کی معلومات لینا چاہیں، یا لوگوں سے قابل دید جگہوں کے متعلق جاننا چاہیں تو سب سے پہلے آپ کو مینار جنبان کے متعلق ہی بتائیں گے۔ کسی ٹیکسی ڈرائیور سے بات کریں کہ بھائی کہیں گھما لاؤ، وہ کہے گا اپ نے مینار جنبان دیکھا؟ حتی کہ کسی مقامی دوست سے ملیں، دکان سے اشیاء خریدتے ہوئے کسی دکان دار سے پانچ منٹ گپ لگالیں، یا کسی پرہجوم مقامی ریستوران کہیں بیٹھ کر کھانا کھانا چاہیں۔ سب سے پہلے آپ سے پوچھیں گے۔کیا اپ نے مینار جنبان دیکھا؟

اور پھر ہم نے اسے دیکھ ہی لیا۔ پاکستانی دو ہزار روپے سے زائد فی کس ادا کرکے جب ہم اس چھوٹے کسی قدر تنگ سے باغیچہ میں داخل ہوئے کہ جس کہ وسط میں یہ مینار جنبان کی چھوٹی سی عمارت کھڑی تھی۔ تو یقین جانیں کہ سخت مایوسی ہوئی۔ آنکھوں میں لاہور کے شاہی قلعہ اور شالیمار باغ کی وسیع وعریض اور پرشکوه عمارات گھوم گئیں۔ لوگ وہاں جوق درجوق یوں جمع تھے جیسے کوئی بہت بڑا عجوبہ ہو۔ عمارت کا صحن لوگوں کی تعداد کے حساب سے چھوٹا پڑ رہا تھا جس میں اکثریت غیرملکیوں کی تھی۔

کچھ دیر کے بعد ایک صاحب ایک مینار پر تشریف لے گئے اور اسے زور سے ہلانے لگے، ردعمل کے طور پر دوسرا مینار بھی ہلنا شروع ہوگیا۔ لیکن اس کی یہ حرکت بہت ہی کم تھی۔ گھنٹیوں کی آواز سے ہی یقین ہورہا تھا کہ دوسرا مینار بھی ہل رہا ہے۔ دو تین منٹ یہ تماشا رہا اور ہم منہ لٹکائے واپس چل دیے۔

مینار جنبان کی عمارت تو ہمیں بالکل متاثر نہ کرسکی مگر واپسی پر ہم ایرانیوں کے رویوں سے ضرور مرعوب ہورہے تھے، کہ ان کو اپنی تاریخ اپنی اشیاء اور اپنی تہذیب سے اس قدر محبت ہے کہ انہیں اپنا مینار جنبان بھی تاج محل دکھائی دیتا ہے۔ یہ بالکل وہی رویہ ہے جو کسی بھی ماں کو اپنے بچے کو دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ باور کروانے پر مجبور کرتا ہے۔

اسلام آباد سے سکردو بذریعہ جہاز جاتے ہوئے میں حیرت انگیز نظاروں میں گم یہی سوچتا رہا کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر ہے۔ جس میں ایک گھنٹہ کے سفرکے دوران ہم سیف الملوک جھیل، لولوسر جھیل، نانگا پربت چوٹی، دریائے سندھ، کوہ ہندوکش کے سلسلے، کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے سلسلے اور ان تینوں سلسلوں کے ایک جگہ ملنے کے مناظر دیکھتے ہیں۔ اور پھر کے ٹو کی چوٹی۔ آخر میں دونوں اطراف سنگلاخ اونچے پہاڑوں میں آہستہ آہستہ اترتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ دریچہ کی کانچ حائل نہ ہوتو ہم پہاڑوں کو چھو سکتے ہیں۔

اسلام آباد سے انتہائی خوبصورت سکردو تک ہوائی جہاز کا سفر زندگی کے خوشگوار ترین تجربات میں سے ایک ہے۔ میرا ایسا ماننا ہے کہ یہ سہولت اگر ایرانیوں کو میسر ہوتی تو ہر تیسرا شخص آپ سے پوچھتا۔۔ کیا آپ نے اسلام آباد سے سکردو کا فضائی سفر کیا ہے؟

ہمیں یقیناً ابھی اپنی چیزوں سے محبت کرنا، انہیں اہمیت دینا انہیں بہت پروفیشنل انداز میں دنیا کے سامنے رکھنا سیکھنا ہے۔ ہمیں سیکھنا ہے کہ کیسے اپنے دیس کی خوبصورتی، اپنے لوگوں کی قابلیت اور اہلیت و اہمیت کو دنیا پر آشکار کرنا ہے کہ وہ مجبور ہوجائیں کہ پاکستان دیکھے اور پاکستانیوں سے ملے بناان کا گذارا نہیں۔

کم از کم سکردو کی حد تک اس سوال کا آغاز میں کررہاہوں، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ۔۔ کیا آپ نے اسلام آباد سے سکردو فضائی سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو تیاری پکڑیں یقیناً یہ آپ کی زندگی کا بھی خوشگوار ترین تجربہ ہوگا۔

صرف فضائی سفر ہی کیا صاحب، سکردو کے گردونواح میں سیاحت کے ایسے ان گنت مقامات ہیں جو قدم قدم پر آپ کو مسحور کردیں گے۔ زبردست آبشاریں، دل نشین جھیلیں، خوبصورت وادیاں، بدھا کا تاریخی مجسمہ، صدیوں پرانے تاریخی مقامات، لکڑی کی بنی عمارتیں، راجاؤں کے قلعے، اپنی نوعیت کا واحد ریت کا ٹھنڈا صحرا جس میں چاندنی کے مناظر آپ ساری زندگی بھلا نہ پائیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر دیوسائی کا میدان۔ ایسا زبردست تجربہ جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ جذبات کا ساتھ نہ دے پائیں۔

لیکن یہ سب کچھ یہ سارا سیاحتی خزانہ ایسے ہی تقریباً بے کارپڑا رہے گا جیسا اب ہے اگر ہم اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا نہیں سیکھ پائے۔ اور صرف اس خزانے کی مارکیٹنگ ہی نہیں سیکھنا، ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی سیکھنا ہے کہ جب کوئی ہماری دعوت و کاوش سے انہیں دیکھنے کے لیے آجائے تو اس سے کیسا سلوک کرنا ہے۔ اس سے اہمیت اور محبت کا احساس دلاتے ہوئے خدمات کا جائز مشاہرہ لینا ہے۔ ہوٹل میں سیاحتی مقامات پر، اور بازاروں میں متعلقین اور عام لوگوں نے سیاحوں کو کیسے تعظیم و توقیر بخشنا ہے، کہ انہیں کسی طور احساس نہ ہوپائے کہ وہ تیسری دنیا کے کسی ملک کے کم تہذیب یافتہ شہریوں کے درمیان ہیں۔

وبا سے پہلے ترکی اور دوبئی میں اوسطاً سالانہ چارکروڑ سیاح آتے تھے۔ اگر ہم اس کا سوواں حصہ چار لاکھ سیاح سالانہ کا بھی انفراسٹرکچربنا لیں تو سالانہ پچاس ارب ڈالرز کا زرمبادلہ گھر بیٹھے کمایا جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ بہت بڑا ہدف اور خوش فہمی پر مبنی سپنا ہے مگر سو میل کا سفر بھی پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ بات طویل ہوگئی اس سوال کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔۔

کیا آپ نے اسلام آباد سے سکردو کا فضائی سفر کیا ہے؟

Check Also

Karishma Saz, Maryam Nawaz

By Najam Wali Khan