Jurmana
جرمانہ
ذہین احمد ایک سرکاری سکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ اپنے نام کی طرح ذہینکلاس میں ہمیشہ اول آتے ہیں۔ آدھی بات کو پورا سمجھتے ہیں، اساتذہ اور ماں باپ کی آنکھ کے تارے ہیں۔ یہ مئی انیس سو تراسی کی گرم دوپہر ہےذہین احمد سکول سے واپس آتے ہوئے گھرکے دروازے کے قریب پہنچ کر سائیکل سے اترے ہیں۔ اگلے پہییے کے دباؤ سے نیم وا کواڑ کھول گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی
سائیکل دیوار کے ساتھ لگا کر ڈیوڑھی کے آخری سرے پر پڑے دبیز پردے کو خودکار انداز میں ہاتھ مار، صحن میں داخل ہوتے ہوئے 'ٹو ہوم اٹ مے کنسرن' قسم کا سلام باآواز بلند کرتے ہیں۔
سلاں لے کوم
صحن کے اگلی طرف برآمدہ ہےیہ پرانے طرز کا ایک پانچ مرلہ کا گھر ہےبرآمدہ میں بائیں طرف چھوٹا سا باورچی خانہ ہے جس میں ذہین احمد کی والدہ ان کیلئے کھانا نکال رہی ہیں۔ برآمدہ کے دوسری طرف ذہین احمد کے بابا آرام کرسی پر آنکھیں بند کئے تسبیح ہاتھ میں لیے خالق سے رازونیاز کررہے ہیں
ذہین احمد بستہ برآمدہ کی دائیں طرف والے کونے میں پڑے لکڑی کے تخت پر رکھ کر اسی تخت پر ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ خلاف معمول بات ہےوالدہ کھانا لیکر تخت کے پاس آتی ہیں۔ کیا ہوا بیٹا ذہین احمد سب خیریت تو ہےآج ایسے کیوں خاموشی سے یہاں آکر بیٹھ رہے۔ پریشان صورت ذہین احمد کو ماں کے چمکارنے سے کچھ حوصلہ ملتا ہےپہلا نوالہ لیتے ہوئے، آنکھیں جھکائے کہتے ہیں۔ وہ جو بل اور پیسے آپ نے دیے تھے جمع کروانے کیلئے وہ کہیں کھو گئے۔
اف ذہین احمد یہ کیا کیا آپ نےپورے پچاس روپے ہی گم کردیےاور ساتھ بل بھیآج تو آخری تاریخ تھیاب جرمانہ بھی بھرنا ہوگا، گھر میں عسرت تھ ی والدہ جانتی تھیں کہ پچاس روپے کا یہ خسارہ کئی ماہ تک بھی پورا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے وہ بہت زیادہ ہی فکر مند ہورہی تھیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون بابا نے باآواز بلند پڑھتے ہوئے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی کوئی بات نہیں۔ ذہین کی ماں اللہ کریم سب ٹھیک کردیں گےفکر مند نہ ہوں۔ بابا کے دلاسہ سے ذہین احمد اور ان کی والدہ دونوں کوسکون سا ہوگیابابا یہ بل وقت پر جمع نہ کروانے پر جرمانہ کیوں ہوتا ہے۔ بابا کے دلاسہ سے حوصلہ پاتے ہوئے ذہین احمد نے اپنی فطرت کے مطابق فوراً سوال داغ دیا۔
بیٹا یہ انسانی فطرت ہےاگر اسے خوف یا لالچ نہ ہو تو وہ بہت غافل ہورہتا ہےاسی لیے مختلف فیسوں اور بلوں وغیرہ پر مدت مقررہ کے بعد جرمانہ عائد کیا جاتا ہےمگر بابا ہم نے تو اسلامیات کے سبق میں پڑھاکہ نماز وقت مقررہ پر نہ پڑھنے پر جرمانہ نہیں ہوتا الٹا چھوٹ ملتی ہےقضا نماز کی رکعتیں معمول سے بھی کم ہوتی ہیں۔ یہ تو رب رحیم کی خصوصی رحمت ہےبابا سے پہلے ذہین کی والدہ بول پڑیں۔
بابا نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکااس میں کوئی شک نہیں اللہ کریم کی رحمتیں بے حساب ہیں۔ لیکن یہ مفت میں بھی نہیں بٹ رہیں، عندالطلب ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے رحمت رحمان کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر پر بہرحال حکمت کا بند موجود ہےجب تک شوق اور طلب کے نیزے سے اس بند میں شگاف کرکے عمل کی کھیتیوں کو اس سے سیراب نہیں کریں گے اعمال صالح کی فصل نہیں اگتیصرف اور صرف رحمت ایزدی کا بے پایاں ہونا اس سے سیراب ہونے کی ضمانت نہیں ہےورنہ تو اس دنیا میں تین چوتھائی لوگ تو مسلمان ہی نہیں، کیا انکے کیلئے ذات باری تعالیٰ رحیم نہ ہے؟
اور رہی بات قضا نماز کی تو دیکھو بیٹا، اگر آپ ظہر کی دس رکعت پڑھیں تو بیس سجدے ہوئےاب آپ لیٹ ہوگئےصرف قضا پڑھیں گےیعنی چار رکعت۔ گویا صرف آٹھ سجدے، تو یہ سزا کیا کم ہے کہ آپ کو لیٹ ہونے پر بارہ سجدوں سے محروم کردیا گیا ہے۔