1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Jahaz

Jahaz

جہاز

سیانے کہتے ہیں کہ حضرت انسان کی اڑنے کی خواہش اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ حضرت انسان خود۔ عجیب احمقانہ بات ہے۔ گویا جونہی پہلے انسان کی نظر کسی بھی پہلے محو پرواز پرندے پرپڑی، اس نے فوراً کہہ دیا

نی میں اڈی اڈی جاواں، کاں دے نال

حالانکہ ہمارے خیال میں پہلے انسان نے پہلی بار اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر جو پہلا کام کیا ہوگا

اسے دیکھتے ہی کہا ہوگا " اوئے ایہہ کیہہ"۔ (ارے۔۔ یہ کیا؟)۔

گمان فاضل ہے کہ تاریخ انسانی میں اڑائی جاسکنے والی چیزوں میں حضرت انسان نے سب سے پہلے مکھیاں اڑائی ہوں گی۔ پھر ٹھٹھہ اور پھر افواہیں۔ جہاز کی باری تو کہیں بہت بعد میں آئی۔ گویا کہ جس طرح بیچاری نرگس ہزاروں سال روتی رہی تب جاکر تھیٹروں میں دیدہ ور پیدا ہوئے اسی طرح کوئی سلطان راہی بھی ہزاروں سال تڑپا ہوگا جب۔ رائٹ برادران نے پہلی پرواز بھری۔

یہ بیسویں صدی کے آغاز کا واقعہ ہے۔ جب دو انگریزی بھائی رائٹ برادران نے پہلی بار ایک سو پانچ فٹ کی پرواز کی۔ حکیم حاذق کہتے ہیں کہ یہ رائٹ کی برکت ہے کہ آج دنیا پر آسائش جہازوں پر محو پرواز ہے۔ اگر یہ تجربہ لیفٹ برادران نے کیا ہوتا تو شاید کرہ ارض کی سب سے تیز ہوائی سواری۔۔ ہوائی چپل۔۔ ہوتی۔

جہاز تو آپ جانتے ہی ہیں ایک بڑے سے دھاتی ڈبے کو کہتے ہیں جو کچھ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے اور باقی لوگوں کا تراہ نکالنے کے کام آتا ہے۔ بیشتر اڑنے والی چیزوں کی طرح جہازوں کے بھی دو پر اور ایک دم ہوتی ہے۔ قابل خرگوشوی کہتے جہاز کے پر ہوا کے دباؤ اور رفتار کا درست تال میل فراہم کرتے ہوئے اسے ہوا میں اڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ جبکہ مایوس دقیانوسی کا خیال ہے کہ جہاز میں پر محض اس لیے ہوتے ہیں کہ انہیں ان کے سامنے سیٹ دی جاسکے تاکہ وہ سار راستہ اور کچھ نہ دیکھ پائیں۔ جب کہ آزاد روشن خیالوی کہتے ہیں جہاز ہوائی اڈوں کے قریب کی آبادی میں آبادی کا تناسب درست رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

کچھ جہاز بہت ہی بڑے ہوتے ہیں واقعی جہاز۔۔ اور کچھ اتنے چھوٹے کہ ان کو جہاز کہنے والا خود جہاز لگتا ہے۔ جہاز گوروں نے ایجاد کیے اور وہی بناتے ہیں اس لیے ان بیٹھنے کیلئے کرسیاں لگائی جاتی ہیں۔ شکر ہے ہم نہیں بناتے ورنہ موڑھے، پیڑھیاں یا دریاں بچھی ہوتیں۔ اور شاید ہر چار، چھ تکیوں کے بعد ایک گھڑا بھی پڑا ہوتا۔

جہاز کا عملہ اڑان سے بیشتر کچھ ہدایات دیتا ہے۔ اور ساتھ یہ ہدایت بھی کہ یہ ہدایات ضرور دیکھیں۔ حالانکہ حادثات کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں ہدایات سننے والے، نہ سننے والے اورہدایت دینے والے سب قریب قریب ہی پڑے ہوتے ہیں۔

سیٹ بیلٹ باندھنے پر اتنا زور دیا جاتا ہے جیسے حادثہ کی صورت میں اس کی وجہ سے لوگوں کی جان بچانے میں سہولت ہوتی ہیں۔ حالانکہ کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی صورت میں سیٹ بیلٹ کی وجہ سے ملک الموت کو ضرور سہولت ہوتی ہوگی۔

جہاز جب اڑان بھرتا ہے تو بڑے سے بڑے جغادری بھی خوف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ہمیں خود سینکڑوں بار کے فضائی سفر کے باوجود ہتھیلیوں میں پسینہ آجاتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ بھی جانا کہ پرندوں کی ہتھیلیاں کیوں نہیں ہوتیں۔ آخر بھلا وہ اتنے پسینے کا کیا کرتے۔

نجی ہوائی کمپنیاں مسافروں کے اس خوف کو رفع کرنے کیلئے حسین فضائی میزبان بھرتی کرتی ہیں۔ تاکہ مسافروں کا دھیان بٹا رہے۔ جبکہ فضائی میزبانوں کی بابت قومی ائیر لائن کا فلسفہ تھوڑا مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر جہاز کے باہرکے لوگوں کا جہازوں کی وجہ سے تراہ نکلتا ہے تو کیوں نہ یہی سہولت مسافروں کو جہاز کے اندر بھی فراہم کی جائے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ کامیاب بھی رہتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے جہاز کے محو پرواز ہوتے ہی کان بند ہوجاتے ہیں۔ بیشتر شوہر یہ خواہش کرتے پائے گئے ہیں کہ کاش یہ سہولت انہیں زمین پر بھی میسر ہوتی۔ ایک وقت تھا جب ہماری قومی ہوائی کمپنی کی دنیا میں دھوم تھی۔ اور دنیا کے باقی ادارے ان سے اٹھان سیکھتے تھے۔ پھر شاید انہیں کسی نے بتا دیا کہ اسلامی جمہوریہ میں دھوم دھڑکا زیادہ پسندیدہ عمل نہیں۔ پھر انہوں نے بڑی محنت سے اس کو عجزوانکسار اور فقر سے روشناس کروایا۔ آج ہمارے باقی ادارے ان سے اتران سیکھتے ہیں۔

جہاز بنانے کے لیے دنیا بھر میں موجود وقت کی سب سے بہترین ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ بڑے جہاز بناتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں چین نے بھی اپنے جہاز بنائے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ برازیل جیسا ملک پچاس سال سے جہاز بنارہا ہے۔ ان کی سرکار نے فیصلہ کیا کہ برازیل جہاز بنائے گا اور پھر محنت اور لگن کی ایک داستان ہے۔

برازیل ہمارے جیسا ملک ہے جس کی جہاز بنانے والی کمپنی امریکی بوئنگ اور یورپی ائیر بس کے بعد جہاز بنانے والی تیسری بڑی کمپنی ہے۔ جو اب تک چھوٹے بڑے دس ہزار جہاز بنا چکی ہے۔ ان کے جہاز سواریوں کے ساتھ کارگو، فوجی مقاصد اور زراعت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

گویا انسان اجتماعی یا انفرادی طور پر اگر کچھ بھی ٹھان لے تو وسائل، ٹیکنالوجی، ہنرمند غرض کسی چیز کی بھی کمی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آپ بھی ٹھان لیں ہم نے خوشحال ہونا ہے اور پاکستان کو خوشحال بنانا ہے۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin