Irtikaz Ki Taqat
ارتکازکی طاقت
ایک بے حد کامیاب کاروباری شخصیت نے مشاورت کیلئے بلایا۔ گھنٹہ بھر کی ملاقات میں ان کے مطلوبہ منصوبہ کے ساتھ دو تین اور منصوبہ جات کا بھی تفصیل سے تذکرہ ہوا۔ بظاہر وہ نئے کام ان کے مجوزہ کام سے زیادہ ایڈوینچرس اور منافع بخش لگ رہے تھے، مگر ساری گفتگو کے بعد انہوں نے کہا۔۔ بھئی ہمیں بس اس کام پر کنسلٹینسی درکار ہے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے جانا کہ یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
ایک یہ کہ انہیں خوب معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے clarity of thoughts اور دوسرا اپنے ہدف پر مکمل توجہ۔۔ یعنی ایک بار خوب سوچ سمجھ کر اپنے ہدف کا تعین کرلیا تو پھر چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے آپ نے اس ہدف کو حاصل کیے بنا نہیں رکنا۔۔ اور نہ ہی آدھے راستے میں ہدف تبدیل کرنا ہے۔
وقت کی پابندی، صفائی اور سماجی اختلاط کے ساتھ جس بات کی مشق سب سے زیادہ نماز سے ملتی ہے وہ ہے ارتکاز۔۔ Concentration۔۔ یعنی توجہ۔ کیونکہ اصولی طور پر جتنا وقت ہم نماز میں مشغول رہتے ہیں ہمیں دنیا و مافیہا سے بے خبر صرف اور صرف خالقِ کائنات کی طرف توجہ کرنا ہوتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ سالہا سال کی مشق کےبعد بھی ہم میں سے بہت سے لوگ اس ارتکاز یا توجہ سے محروم رہتے ہیں۔
میری رائے میں انسانوں کو نماز سے جو سب بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ انہیں ارتکاز کرنا آجائے۔۔ اس کے ان گنت فوائد ہیں۔ اگر نماز اتنی اہم ہے کہ اس کے لیے کتاب ہدایت میں سینکڑوں بار تاکید کی گئی۔۔ تو سوچیں کہ ارتکاز کی صلاحیت کی کیا اہمیت ہوگی۔ جو اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔
ہم جب لوگوں کی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں سب سے بڑا حصہ کسی ایک کام یا نکتہ پر توجہ کی کمی ہی نکلتا ہے۔ بہت سے ناکام لوگ صرف اس وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک زیادہ کام کرتے ہوئے آخر تک یہ ہی طے نہیں کرپاتے کہ ان کے لیے سب سے اہم کام کونسا ہے کہ جس پر سب سے زیادہ وسائل اور توجہ دی جائے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وسائل اور توجہ تقسیم ہونے سے ایک کام بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
ہمارے ایک دوست بہت بڑے صنعتکار ہیں۔ دہاڑی دار مزدور سے لیکر بہت بڑی صنعت تک کا انکا کامیابی کا سفر بجائے خود ایک لہو گرم کرنے والی داستان ہے۔ مگر ان کی زندگی میں جو خاص بات ہے وہ یہی ہے کہ جو کام شروع کیا، حالات ناسازگار ہونے پر اگرچہ اسے کچھ عرصہ کے لیے روکنا بھی پڑا اور زندہ رہنے کیلئے دوسرے کام بھی کرنا پڑے مگر جیسے ہی حالات معمول پر ائے فوراً اس پر دوبارہ کام شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جتنے بھی کام زندگی میں شروع کیے آج سب کے سب ثمر آور ہیں۔ گویا ارتکاز اگر لمبے عرصہ تک رہے تو وہ مستقل مزاجی میں بھی ڈھل جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہمیں صرف جاری کاموں میں ہی ارتکاز اور توجہ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کسی کام یا کاروبار کے آغاز کے لیے بھی اس کی اسی قدر اہمیت ہے۔اگر آپ کے ذہن میں ایک سے زائد کام ہیں یا آپ کی دلچسپی کے امور ایک سے زائد ہیں تو بھی ان سب میں سے میرٹ پر اپنے دستیاب وسائل، تعلیم، تجربہ، قبولیت اور تکمیل کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک کام کا انتخاب کریں۔ سارے وسائل اور ساری توجہ اسی پر مرکوز کردیں پھر مسلسل محنت سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
بالکل یہی اصول تعلیم و ہنر پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ لیکچر جے دوران توجہ وہاں پر مرکوز رہے جہاں موجود ہیں، بے خیالی، بے دھیانی سے مکمل سیکھنا ناممکن ہے۔ پھر بہت زیادہ متنوع علم کے حصول کی کوشش بھی ارتکاز کے اصول کے خلاف ہے۔ جتنا زیادہ تحصیل علم میں موضوعات کا ارتکاز ہوگا اتنا ہی ایک چیز کے متعلق گہرا علم یعنی مہارت حاصل کرنے امکانات زیادہ ہوں گے، اور جان لیں کہ ارتکازسے مہارت حاصل کرنا اور مستقل مزاجی سے اس سے نفع لیتے رہنا ہی اصل میں کامیابی ہے۔