Hasil e Zeest
حاصل زیست
کوئی پندرہ سال لگے ہوں گے اس سلجھن کو پانے میں۔ الجھن یہ تھی کہ وطن عزیز کے لوگ باقی دنیا کے لوگوں کی طرح قابل، انتہائی ہنرمند اور مبدی۔ (creative) کیوں نہیں۔ ہم جب بھی دنیا کے دیگر ممالک کی صنعتوں میں لوگوں کو تندہی، جانفشانی اور کسی قدر اطمینان سے کام کرتے ہوئے دیکھتے تو قدرتی طور پر دل گرفتہ تو ہوتے ہی مگر ساتھ ہی جواب کی تلاش میں لگ جاتے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور پندرہ سال بعد آخر جواب مل ہی گیا اور وہ بھی ایک واٹس ایپ گروپ سے۔
ہوا یوں کہ کچھ عرصہ قبل ایک محترم دوست نے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا۔ گروپ کیا ہے بہت سے مشہور اور قابل دوستوں کی کہکشاں ہے۔ گو پہلے سے ایسے کئی گروپس کا حصہ رہے ہیں، مگر اس گروپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مکالمہ انتہائی احترام سے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی گروپ ممبر کو respected sir یا respected ma'am کے سوا مخاطب نہیں کیا جاسکتا۔
اختلاف رائے کے لیے الفاظ کا چناؤ بھی بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے کہ کسی کے لیے کوئی خلاف شان یا باعث تکلیف بات نہ کہی جائے۔ گروپ میں سیاست، مذہب، تعلیم، عالمی معاملات غرض ہر موضوع پر بات ہوتی ہے۔۔ مگر ہر مکالمہ کے بعد ایک عجیب سی طمانیت اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ خود کو اہم محسوس کرتے ہیں۔ جی کرتا ہے گروپ کے باہر کے لوگ بھی ہم سے ایسا ہی برتاو کریں اور ہم لوگوں سے۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔۔
اس احترام سے ملی سرشاری پر غور کرتے ہوئے ہی یہ عقدہ کھلا کہ انسان جو شاید اسی لیے اشرف المخلوقات ہے، کی ذہنی صلاحیتیں اس وقت تک اجاگر اور کارگر نہیں ہوتیں جب تک اس کی عزت نفس مکمل طور پر بحال نہ ہو۔ اس دریافت کے بعد ہم نے اپنے ارد گرد کام کرنے والے لوگوں پر کچھ تجربات بھی کیے۔ کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ انتہائی ادب و احترام سے پیش آنا شروع کیا، ایک دو استثنائی صورتوں exceptions کے سوا حیرت انگیز نتائج ملے۔
تبھی ہمیں اندازہ ہوا کہ گوروں نے دو صدیاں قبل جب افریقی انسانوں کو غلام بناکر کام لینا شروع کیا تو اس قدر جلد کیوں اس غلامی کو ختم کرکے کارپوریٹ ورلڈ کا ماڈل تشکیل دیدیا۔ کیونکہ غور و فکر کی عادت نے انہیں اس حقیقت سے جلد روشناس کرا دیا ہوگا کہ تمام تر سہولتوں، انسانی حقوق کی پاسداری اور احترام کے ساتھ انسانوں سے غلامی کی نسبت کہیں زیادہ بہتر کام لیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف بدقسمتی سے صدیاں گزرنے کے باوجود ہم اس بات کو نہیں جان پائے۔۔ ہم نے آج بھی کام کرنے والوں کو کاما، مزارع، نائی اور موچی ہی بنا کر رکھا ہوا ہے۔
اگر ہمیں بھی غوروفکر کی عادت ہوتی تو شاید ہم بھی جان پاتے کہ شرف معراج انسانیت سے ہمکنار ہونے کے بعد ہی انسان اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ استعداد کے ساتھ کام کرسکتا ہے اور اگر ہم بھی کہیں ایسا کرپاتے تو ہمارے کامے۔۔ مزارع۔۔ نائی۔۔ موچی وغیرہ بھی، نیبرلی، کارگل، گریٹ کلپس اور باٹا جیسے ادارے بناکر بیٹھے ہوتے۔
دیکھیں انسان کی اہمیت اور احترام تو خالق کی نظر میں بھی بہت ہی زیادہ ہے۔ خالق اپنی کتاب میں انسانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کبھی تکریم کی کمی نہیں کرتے۔ لیکن اس کے برعکس وطن عزیز کے نظام میں بچپن میں گھر، سکول، کالج سے لیکر بڑے ہوتے تک ہسپتالوں، سرکاری اداروں، تھانوں، کچہریوں، پولیس کے ناکوں، غرض ہر جگہ پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تم بس غیر اہم سی اکائی ہو۔ اور ایسا سلوک تو شہری آبادی کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، دیہات اور دور دراز تو صورت حال اور بھی مخدوش ہے۔
آپ ناراض مت ہوئیے گا، حقیقت یہ کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو علم ہی نہیں کہ انسانوں کا معاشرہ ہوتا کیسا ہے۔ انسان کی اہمیت اور قدر کیا ہے اور اس سے کس طرح پیش آنا چاہیے یا آیا جاتا ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ جو لوگ باہر کے ممالک کا سفر کرتے ہیں یا وہاں رہ کر آتے ان کو ہی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سی باتیں ہمارے اختیار میں نہیں مگر جہاں تک ہمارے بس میں ہے ہمیں ایک دوسرے سے ازحد احترام سے پیش آنا چاہئے۔ گھر والوں سے، اعزا و اقربا سے خاص طور پر ماتحتوں اور مالی طور پر کمزور لوگوں سے۔۔
آئیں آج سے عہد کریں کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کواشرف المخلوقات کا مرتبہ دیں ان کی توقیر کریں تاکہ ہمارے لوگوں کی صلاحیتیں بھی پوری طرح اجاگر ہوں، ہم پاکستانی بھی افق اقوام عالم پر پوری آب وتاب سے چمکیں۔ ہم بھی خوشحال ہوں۔