Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Fori Radd e Amal, Thapar

Fori Radd e Amal, Thapar

فوری ردعمل، تھپڑ

کبھی امریکہ یا یورپ میں وقوع پذیر حادثات کی کلوز سرکٹ ٹی وی کی ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل بے قابو ہو کر کسی راہگیر سے ٹکرا جاتی ہے، یا گاڑی کے بریک فیل ہو جاتے ہیں اور وہ کسی سٹور یا ریستوران میں گھس جاتی ہے۔ وہاں موجود لوگوں کا فوری ردعمل کیا ہوتا ہے؟ وہ لوگ بھاگتے ہیں سب سے پہلے ڈرائیور کو اٹھاتے ہیں کہ کہیں اسے چوٹ تو نہیں آئی۔ پھر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حادثے کی وجہ کیا ہوئی۔

متحدہ عرب امارات یا دیگر عرب ممالک میں مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ دو گاڑیاں اگر آپس میں ٹکڑا گئیں۔ چاہے گاڑی کروڑوں کی ہے چاہے جتنا بھی نقصان ہوا دونوں ڈرائیورز کا فوری ردعمل کیا بہوتو ہے۔ اللہ کریم کہتے ہوئے نکلے ایک دوسرے کو سلام کیا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر پولیس کا انتظار کرنے لگے۔ بلکہ ایک ویڈیو میں یہاں تک دیکھا کہ ایک وین والا بمشکل تمام ایک بہت بڑے بلکہ جان لیوا حادثے سے بال بال بچا اور اترتے ہی زمین پر سجدہ ریز ہوگیا۔

دوسری طرف پاکستان میں کیا ہوتا ہے ایک انجینئر دوست بتا رہے تھے کہ وہ اشارے پر کھڑے تھے ایک موٹر سائیکل رکشہ والے سے بریک نہیں لگی ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ کہتے ہیں انہوں نے باہر نکل کر جوتا اتار لیا اور پانچ سات لگائے رکشہ ڈرائیور کو۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک ریڑھی بان سے سیب لینا چاہے۔ وہ میری طرف والے بڑے اور پکے ہوئے سیبوں کی جگہ اپنے سامنے سے کچے اور چھوٹے چھوٹے سیب ڈالنے لگا۔ بڑے فخر سے کہتے میں نے ایک لگائی اس کے منہ پر اس کی عقل ٹھکانے آ گئی۔

ہمارا یہ عمومی بلکہ قومی رویہ ہے کہ کبھی کہیں آتے جاتے کوئی غلطی سے مس ہو جائے، گاڑی یا کسی چیز کا تھوڑا یا زیادہ نقصان ہو جائے، خریداری کرتے ہوئے دھوکہ کا شائبہ ہو جائے یا کسی پر شک ہو جائے کہ اس نے کچھ چرایا ہے، یا حتٰی کہ گفتگو کرتے ہوئے ہی تکرار ہو جائے فوراً تھپڑ مارنے پر جسمانی تشدد پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے تو بڑے گاہے ٹی وی چینل کے مباحث میں حتٰی کہ اسمبلیوں میں ایک دوسرے کو مارنے کی کوشش کرتے دکھائی دے جاتے ہیں۔

اس تھپیڑوں والی نفسیات کو بہت جاننے کی کوشش کی۔ جو بات قرین قیاس لگتی ہے وہ یہ ہم بچپن سے ہی تھپیڑ اور جوتے کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ بچہ خلاف توقع دیر سے گھر آئے، اس سے گلاس گر کر ٹوٹ جائے، یا کوئی بھی اور غلطی سرزد ہو جائے اس کی سزا اور اصلاح تھپیڑوں کی صورت میں ہی کی جاتی ہے۔ سکول کا کام نہیں کرے، مسجد کے قاری صاحب کا سبق یاد نہیں کرے، تھپڑ۔ بلکہ بچہ کسی چیز کے حصول کی ضد کر لے۔ تھپڑ۔

کسی بھی شخص کا کسی بھی معاملے پر فوری ردعمل اس کی سوچ نہیں بلکہ فطرت کی غمازی کرتا ہے۔ کیوں کہ فوری ردعمل میں سوچنے کا وقت نہیں ملتا۔ آپ آزما کر دیکھ لیجیے ہمارا بحیثیت قوم فوری ردعمل تھپڑ یا تشدد ہے۔ گویا نسل در نسل تشدد ہماری طبیعت یا جبلت بن چکا ہے۔ جس کا شاخسانہ ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ ہجوم کے تشدد سے ہونے والی اموات کی گنتی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

اس غیر انسانی فطرت سے نجات حاصل کرنے کا ہماری نظر میں ایک ہی راستہ ہے اس پر بات کی جائے۔ دن رات ہر جگہ ہر محفل میں، ٹی وی پر سماجی ذرائع ابلاغ پر۔ اخبارات میں ہر جگہ، ہر وقت۔ ہم سب خود کو باور کروائیں کہ ہم انسان ہیں اور انسانی فطرت پیار ہے شفقت ہے تشدد اور تھپڑ نہیں۔ امید ہے کہ ہم بہت بار جب یہ بات کہیں سنیں گے تو ہمارے شعور اور لاشعور کو یقین ہو جائے گا کہ ہم انسان ہیں ہماری فطرت پیار ہے تھپڑ نہیں۔ پھر ہمارا فوری ردعمل شفقت کا ہوگا تشدد کا نہیں۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal