Dhuwan
دھواں
مایوس دقیانوسی کہتے ہیں سائیکل چلاتے چلاتے رب کریم نے گاڑی دیدی۔ ہماری جانے بلا اس کے کیا لوازمات ہیں۔ بالکل نئی گاڑی تھی۔ چھ ماہ خوب چلایا۔ ایک روز ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ انجن سے دھواں نکلنا شروع ہوگا۔ انجن گرم ہوگیا تھا۔ ہم نے پریشان ہوکر سڑک کنارے روک دی۔
دوست تجربہ کار تھے۔ انہوں نے طریقے سے انجن ٹھنڈا کیا۔ ریڈی ایٹر کھولا تو اس میں پانی بہت کم تھا۔ پانی پورا کیا اور ہم سے پوچھا بھائی آپ نے کبھی تیل پانی چیک نہیں کیا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔۔ ہیں جی وہ بھی چیک کرنا ہوتا ہے کیا؟ جواب میں گاڑی کی دیکھ بھال اور اس سے مکمل استفادہ کرنے کے متعلق طویل مگر پر مغز لیکچر سننا پڑا۔
ہمیں بچپن میں دانت صاف کرنا، جوتے پالش کرنا، پینسل گھڑنا وغیرہ تو سکھایا جاتا ہے مگر یہ نہیں سکھایا جاتا کہ زندگی میں جب بھی کسی نئی چیز سے واسطہ پڑے تو سب سے پہلے اس کا درست استعمال سیکھنا چاہیئے، یہ اصول صرف مشینوں پر ہی موقوف نہیں۔۔ بالکل یہی حال رشتوں کا بھی ہے۔ خاص طور پر رشتہ ازدواج۔ زندگی کا اس قدر اہم اور طویل تعلق شروع کرنے سے پہلے کوئی آدھ منٹ کے لیے بھی نہیں سمجھاتا، سکھاتا کہ پورے ایک انسان کے ساتھ کیسے جینا ہے۔ سپیس کیا ہوتی ہے، پرائیویسی کس چڑیا کا نام، خیال رکھنا اور حکومت کرنے میں کتنا فرق ہے۔
اور اس سے بھی بڑھ کر انسانی زندگی کا سب اہم کام بچے پالنا۔ گویا ایک صحت مند اور پر سکون معاشرہ کی تشکیل میں سلجھی ہوئی تربیت یافتہ نسل کی کیا اہمیت ہے کوئی جانتا ہی نہیں نہ جاننا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو والدین کی بچوں کی اچھی تربیت میں ناکامی نہ صرف ان کے اپنے لیے مستقل پریشانی کا سبب ہے بلکہ بدتہذیب اور اخلاقیات کے معروف اصولوں سے عاری انسانوں کو معاشرے پر مسلط کرنے پر وہ ایک طرح سے قومی جرم کا ارتکاب بھی کررہے ہیں۔
ایسے ہی غیر تربیت یافتہ بنیادی اخلاقیات سے عاری افراد جو ہمارے ہاں کثرت سے ہونے والے ہجوم کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، ان بے پروا والدین اور تن آسانی کے رسیا اساتذہ کے پروردہ ہیں جو اپنے بچوں اور شاگردوں کی انتہائی بنیادی بلکہ کم سے کم ضروری تربیت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں اور بالیقین یہ کم سے کم تربیت میں ناکامی کا ہی شاخسانہ ہے کہ کبھی کہیں مندر نذر آتش ہیں تو کبھی کلیساؤں سے دھواں اٹھتا ہے۔
مستقبل میں اگر واقعی ہم سنجیدگی سے ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی نہ کسی سطح پر تعلیم میں بچوں کی تربیت کی اہمیت اور ان کے بنیادی عوامل کی آگاہی دینا ہوگی۔ ورنہ پانی سر سے گذرتا تو جا ہی رہا ہے۔