Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Chalis Hazar Ki Jeans

Chalis Hazar Ki Jeans

چالیس ہزار کی جینز

جینز جس کپڑے سے تیار کی جاتی ہے اسے ڈینم کہتے ہیں۔ ڈینم میں تانا نیلے رنگ کے دھاگے اور بانا سفید دھاگے سے بنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں بنتر کا نمونہ وتر کے رخ ہوتا ہے۔ ایسا ڈیزائن بنانے کے لیے تانا کے تین گھر کے بعد بانے کا ایک گھر آتا ہے۔ جینز کے کپڑے کا معیار جانچنے کے لیے اس کے ایک مربع گز کا وزن اونس میں بتایا جاتا ہے۔ بچوں کے کپڑوں کیلئے آٹھ سے بارہ اونس اور مردانہ جینز کے لیے عام طور پر چودہ اونس کا کپڑا استعمال ہوتا ہے۔

آج کل تجارتی پیمانے پر جینز کا کپڑا بنانے کے لیے شٹل لیس لومز استعمال ہوتی ہیں۔ ان سے زیادہ بر کا کپڑا انتہائی تیز رفتار کے ساتھ تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے کارخانے ہر قسم کے معیار کا جینز کا کپڑا بناتے ہیں جس سے عالمی معیار کی جینز کی پینٹیں تیار کی جاتی ہے۔ ان پینٹوں کا بڑا حصہ امریکہ اور یورپ کے مالک کو برآمد کرکے ہم بہت سا زر مبادلہ کماتے ہیں۔

پاکستان میں تیار کی جانے والی جینز معیار اور ڈیزائن کے لحاظ سے پندرہ سے بائیس ڈالر فی عدد تک برآمد کی جاتی ہیں جو وہاں چالیس سے پچاس ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں۔ مگر جاپان کے بیسیوں کارخانے ایسے ہیں جن میں تیار کی جانے والی جینز امریکہ یورپ اور دیگر ممالک میں دو سو سے تین سو ڈالر تک فروخت ہوتی ہیں۔

ان جینز میں عام جینز کی نسبت چند اوامر کا فرق ہوتا ہے۔ ایک تو جس کپڑے سے بنائی جاتی ہیں اس کپڑے کا دھاگہ بہتر معیار کا ہوتا ہے۔ مگر سب سے اہم بات کہ اس کو رنگنے کے لیے کیمیائی رنگوں کی جگہ ایک پودے Indigofera tinctoria کے پتوں سے حاصل کیا گیا قدرتی رنگ استعمال ہوتا ہے۔ یہ رنگ اس پودے کے پتوں کو کچھ دن پانی میں بھگو کر رکھنے اور اس پر کاسٹک سوڈے کے کیمیائی عمل سے حاصل کیا جاتا ہے۔

مزید برآں ان مہنگی جینز کے لیے کپڑا 25 اونس وزن کا موٹے گف کا تیار کیا جاتا ہے۔ تیاری کے لیے پرانے طرز کی شٹل لومز استعمال کی جاتی ہیں جن سے جدید شٹل لیس لومز کی طرح بانا کا ہر دھاگا علیحدہ علیحدہ نہیں پرویا گیا ہوتا بلکہ ایک ہی دھاگا ہر بار موڑ کر واپس کیا جاتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح سے بنا گیا کپڑا زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوتا ہے۔ اس کپڑے کو selvedge کہتے ہیں۔ اور نشانی کے طور پر اس کے کنارے ہر ایک سرخ دھاری بنائی جاتی ہے۔ پھر ان جینز کو نرم اور آرام دہ بنانے کے بھی مختلف عوامل کیے جاتے ہیں۔ مگر ان میں زیادہ فرق نہیں ہوتا یہ سب عوامل کم وبیش وہی ہوتے ہیں جو عام جینز پر کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں پرانے طرز کی شٹل والی ہزاروں لومز زیر استعمال ہیں۔ بلکہ ان پر selvedge کپڑا بھی بنتا ہے۔ مگر آرگینک ڈائیٹنگ کے علم سے ناآشنائی یا indigofera کی عدم دستیابی کی وجہ سے شاید کبھی کسی نے اس طرح کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات بنانے کا نہیں سوچا۔ میرا نہیں خیال کہ جو پودا یا جھاڑی جاپان، ملیشیا، انڈونیشیا اور بھارت کے تقریباً سب علاقوں میں پائی اور اگائی جاتی ہے وہ پاکستان میں نہ ہو۔

جس طرح پاکستان میں بے روزگاری ہے اور کاریگروں کی مزدوری کم ہے ایسے کام ہمارے بہت زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٹیکسٹائل یونیورسٹی اور ایپٹما کو کچھ دلچسپی لے کر آرگینک ڈائیٹنگ پر کوئی کورس ڈیزائن کرنا چاہئیں تاکہ ہم بھی دنیا میں مہنگی جینز کی مارکیٹ میں اپنا حصہ وصول کرسکیں۔

Check Also

Sattar Faizi Ki Kahani Bhukhi Kutiya

By Rehmat Aziz Khan