1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Barqi Garian Rehmat Ke Zehmat

Barqi Garian Rehmat Ke Zehmat

برقی گاڑیاں رحمت کہ زحمت

سال 2010 میں دنیا بھر میں صرف سترہ ہزار بجلی سے چلنے والی گاڑیاں (الیکٹرک وہیکلز) سڑکوں پر تھیں۔ جبکہ سال دوہزار انیس کے اختتام تک ان کی تعداد ستر لاکھ سے متجاوز تھی۔ سال 2020 میں کووڈ 19 کے باوجود بتیس لاکھ مزید برقی گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ اس وقت ایک کروڑ سے زائد برقی گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں سال 2030 تک پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار تقریباً صفر ہوجائے گی۔

ماہرین کے اس دعوے کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ سال 2020 میں سویڈن میں چوراسی فیصد اور ناروے میں پچاس فیصد رجسٹر ہونی والی گاڑیاں برقی ہی تھیں۔ صرف ٹیسلا نے سال 2020 میں پانچ لاکھ گاڑیاں فروخت کیں جبکہ اس سال ان کا ہدف دس لاکھ گاڑیاں بنانے کا ہے۔ سال 2020 کے دوران چین میں ان کی پیداوار بارہ لاکھ رہی جبکہ اس سال بیس لاکھ تک متوقع ہے۔ پاکستان میں بھی برقی گاڑیوں کے دو کارخانے زیر تکمیل ہیں جن میں جلد ہی باقاعدہ پیداوار شروع ہوجائے گی۔

برقی گاڑی میں پٹرول سے چلنے والے انجن کی بجائے بجلی سے چلنے والی کم از کم دوموٹریں اگلے دونوں پہیوں کے ساتھ لگی ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے سارے فرش پر لیتھیم آئن بیٹریاں ترتیب سے جوڑی گئی ہوتی ہیں۔ ایک بار چارج کیے جانے کے بعد مختلف برقی گاڑیاں تین سو سے بارہ سو کلومیٹر تک فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بیٹریوں کی عمومی لائف دس سے بیس سال تک ہے۔ جبکہ ان پر پانچ سے آٹھ سال کی وارنٹی دستیاب ہوتی ہے۔

پاکستان کے حوالے سے اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں گاڑیوں کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل بھی ذرائع آمدورفت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ بہت درست معلومات مہیا نہیں لیکن اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد گاڑیاں اور پانچ کروڑ سے زائد موٹرسائیکل لوگوں کے زیرِ استعمال ہیں۔

اگر ہم مستقبل کے حوالے سے پاکستان میں برقی گاڑیوں کے استعمال اور ان کیلئے دستیاب برقی توانائی کا اندازہ لگانا چاہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت موٹرسائیکل اور گاڑیوں میں پٹرول کی خرچ کتنا ہے۔ پاکستان میں خام تیل کا کل استعمال قریب پانچ لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ جس کا مطلب ہوا کہ ہم روزانہ قریب دولاکھ بیرل پٹرول استعمال کرتے ہیں۔ دولاکھ بیرل کا مطلب تقریباً سواتین کروڑ لیٹر روزانہ۔

اب اگر ہم فرض کریں کہ آدھا پیٹرول موٹرسائیکل اور آدھا گاڑیاں خرچ کرتی ہیں تو اس حساب سے ہماری اوسط پچیس کلومیٹر فی لیٹر بنتی ہے۔ اگر اسی اوسط سے ہی جمع تفریق کریں تو ہمیں اتنا ہی سفر برقی گاڑیوں پر طے کرنے کیلئے پچاس ہزار میگا واٹ سے زائد برقی توانائی درکار ہوگی۔ اگر ہمارے ملک میں 2030 تک ایک چوتھائی گاڑیاں بھی برقی توانائی پر منتقل ہوگئیں تو بھی ہمیں صرف ان کیلئے تیرہ ہزار میگاواٹ برقی توانائی کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ ابھی پورے ملک میں کی پیداواری صلاحیت بشمول پن بجلی اور جوہری توانائی پینتیس ہزار میگاواٹ جبکہ ترسیل کے نظام کی اہلیت بائیس ہزار میگاواٹ ہے۔

گویا موجود صورت حال کے پیش نظر یا تو سرکار کو برقی گاڑیوں کی پالیسی پر ازسر نوع غور کرنا ہوگا یا پھر ترسیلی نظام اور پیداواری نظام میں ہنگامی بنیادوں پر بہتری لانا ہوگی ورنہ خاکم بدہن آنے والے چند سال میں سی این جی گاڑیوں کی وجہ سے پیدا شدہ قدرتی گیس کے بحران کی طرح، ایک نیا بجلی کا بحران ہمارا منتظر ہے۔

Check Also

Exceptional Case

By Azhar Hussain Bhatti