1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Bara Admi

Bara Admi

بڑا آدمی

بڑا آدمی ہونا اعزاز کی بات ہے اور بڑا آدمی لگنا فیشن۔ ان دونوں میں قریب وہی فرق ہے جو کسی حسینہِ کوہستانی کے کالا کلہو گالوں اور لیلیِٰ صحرائی کے رخِ نیم روشن میں، کہ جسے روغنِ غازہ یعنی فئیر اینڈ لولی بی بی کریم سے آف وہائٹ کرنے کی سعی کی گئی ہو۔

ہمیں، مگر عہد طفلی سے ہی بڑا آدمی بننے کا شوق تھا۔ عین اس عمر میں کہ جب دیگر ہم جماعت تین پہیوں والی سائیکل پر شوقِ ہوابازی فرمایا کرتے، اور ایک روپے کے سو بسکٹوں والے پیکٹ، کسی متوقع ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلیے، اپنے کسی بڑے سے کھلوایا کرتے تھے، عین اس وقت، ہمارا ہدف بڑا آدمی بننا تھا۔

اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ اسی ہدف کے خناس کا فیض تھا یاکوئی نقصِ پیدائشی۔ (built in fault) کہ ہماری اٹھان ہی جدا تھی۔ سو اس عمر میں کہ جب ابھی بےلباس گھومنا قابلِ دست اندازی پولیس جرم نہیں گردانا جاتا، ہم اپنی متروک نیکروں سے الاسٹک نکال کر غلیل بناتے اور چڑیا چڑیاؤں کی جلوت و خلوت کی ملاقاتوں میں دخل درمعقولات فرماتے۔

اور جس عمر میں بچوں کو جملہ عوارض کے معالجہ کیلیے ٹیکہ بدست کمپاؤنڈر کے سامنے ماں یا باپ کی گود میں تقریباً وہی 'پوز' بنانے پر مجبور کیا جاتا تھا، جو ہمارے حکمران قرض خواہی کیلیے آئی ایم ایف کے ہرکاروں کے سامنے بناتے ہیں ۔ عین اسی عمر میں ہم ٹیکوں میں مٹی کا تیل بھر کر جیٹ انجن بنانے کے تجربات کیا کرتے تھے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ادھر ہم عمر کھلونوں کے حصول کے لیے زمین پر لیٹ کر احتجاج کررہے ہوتے۔ ادھر ہم کھلونے بناتے اور ان سے کھیلتے۔

اب قریب نصف صدی ہونے کو ہے اور ہم بیٹھے تاسف سے کف افسوس ملتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ ہم بڑے آدمی کیوں نہ بن پائے۔ یادداشت کے دھندلے شیشوں سے سمے کی گرد ہٹا کر دیکھتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ایسا نہیں کہ ہم بالکل عاطل و خامل رہے اور حصول ہدف کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ واقفانِ حال و ماضی شاہد ہیں کہ اول اکتساب علم اور ثانیاً سعی تلاش وکسبِ رزق حلال کی بے خودی اور تسلیم وامتثالِ قطعیت سے جب جب آزادی نصیب ہوئی ہم نے یک بارگی بڑا آدمی بننے کی جستجو کی۔

وہ الگ بات ہے کہ ہماری ہر جستجو مخلصانہ کا پہلے سے موجود بڑے لوگوں نے خوب تمسخر اڑایا۔ کہ ہم نوواردانِ سوداگری آدابِ کار سے آشنا نہیں ہیں۔ حالانکہ بات فقط اتنی تھی کہ ہم نے جو آدابِ کہنہ ازبر کر رکھے تھے ان سے عصرِ حاضر کے بڑے لوگوں کو یارا نہ تھا۔

ہمیں لگا کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو اوروں کے لیے قربانی دے، مگر دستور رائج الوقت کہ بڑے لوگوں کیلئے رعایا اور عوام الناس کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ ہم سمجھتے رہے کہ بڑا آدمی وہ جو دسترخوان پر حلوہ دیکھے تو جان لے کہ اس کا مشاہرہ اس کی انتہائی ضروریات زندگی سے زائد ہے اور اگلے ہی روز اپنے دستخطوں سے اپنے مشاہرے میں کمی کا فرمان جاری کرے۔ مگر یہاں چلن یہ کہ آن واحد میں پوری کی پوری مقننہ اپنی تنخواہوں کو دوگنا کرنے کا بل اتفاق رائے سے آن واحد میں منظور کرے۔

ہمارا وہم کہ بڑا آدمی جو لرزاں دھرتی کی پشت پر تازیانہ رسید کرے کہ ہلتی کیوں ہے، کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا اور وہ ٹھہر جائے۔ مگر یہاں چلن یہ کہ بڑا وہ جس کے ذاتی بوئنگ اے تین سو اسی میں سوئمنگ پول ہو۔ ہم جلتے کڑھتے رہے کہ روؤسا وامراءِ ملت دولتِ خداداد تحصلِ علومِ جدید بطور خاص سائنس وٹیکنالوجی کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ گاڑیاں اور جہاز نہیں بناتے، کمپیوٹر اور موبائل فون کی صناعی نہیں کرتے، اور وہ اس بات پر رقص کناں کہ انہوں نے ستر سو ارب روپوں سے ایک سو بیس امریکی جہاز خرید لیے۔

ہم بضد کہ

بتانِ رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا۔

بڑے لوگ مصر کہ ' سب سے پہلے پاکستان'۔

سو اے دلِ فگار سن۔۔

جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا۔۔

ہمیں نہیں بننا بڑا آدمی۔۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz