Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Achar Ki Science

Achar Ki Science

اچار کی سائنس

بہت سے دوستوں نے سرکے میں سبزیوں کے اچار کی تصاویر اور تراکیب شئیر کیں۔ اس میں شک نہیں کہ سرکہ بہت اچھا پریزرویٹر(محفوظ کنندہ) ہے۔ مگر اصل میں سبزیوں کے اچار میں سرکہ بالکل بھی نہیں ڈالا جاتا لیکن پھر بھی یہ لمبے عرصے تک محفوظ بھی رہتی، ذائقہ بھی سرکہ سا کھٹا ہوتا ہے اور صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہوتی ہے۔

اچار بنانے کا یہ عمل فرمنٹیشن کے ذریعے سے تکمیل پاتا ہے اور بنی نوع انسان ہزاروں سال سے اس عمل سے آگاہ ہیں۔ اگر آپ ایک بار اس عمل کو ٹھیک سے سمجھ لیں تو آئندہ کیلئے نہ صرف آپ اپنے استعمال کے لیے بہترین، خوش ذائقہ اور انتہائی مفید اچار بآسانی بنا سکیں گے بلکہ اسے تجارتی بنیادوں پر بنا کر کم سرمایہ سے زبردست کاروبار بھی کرسکیں گے۔

پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا کہ ہمارے نظام انہضام میں ہزاروں اقسام کے کھربوں بیکٹیریاز ہوتے ہیں جو ہمارے لیے کھانے کے اجزاء کو حیاتین اور دیگر انتہائی مفید کیمیائی مرکبات میں تبدیل کرتے ہیں۔ انہیں گٹ فلورا کہتے ہیں۔ گٹ فلورا میں پچیس سے پچاس فیصد لیکٹو بے سی لائی نامی بیکٹیریاز ہوتے ہیں۔ یہ کاربوہائیڈریٹس اور فائبر کو لیکٹک ایسڈ میں تبدیل کرتے ہیں اور پانی میں حل ہونے والے حیاتین جیسے حیاتین سی، حیاتین بی 1، بی 2، بی 3، بی 5، بی 6، بی 11 اور بی 12 بناتے ہیں۔

اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ یہ تمام حیاتین ہماری نشوونما اور صحت کیلئے ازحد ضروری ہیں۔ یہی لیکٹو بے سی لائی ہمارے جسم کے باہر بھی تقریباً ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے لیے بہت سے زبردست افعال انجام دیتے ہیں جیسے دودھ سے دہی بنانا، پنیر، پروبائیوٹکس ڈرنکس اور اچار وغیرہ بنانا۔

سبزیوں سے اچار بنانے میں بھی انہیں لیکٹو بے سی لائی کا کردار ہے۔ یہ سبزیوں میں موجود شکر یعنی گلوکوزاور فرکٹوز کو لیکٹک ایسڈ میں تبدیل کرکے سسٹم کی پی ایچ اتنی کم کردیتے ہیں جہاں کسی بھی قسم کے خرابی پیدا کرنے والے جراثیم کیلئے موجود رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

اب اچار بنانے کے عمل کو سمجھتے ہیں۔ جس بھی سبزی کا اچار بنانا مقصود ہوتا ہے اسے کاٹ کر ہلکا سا دھویا جاتا ہے تاکہ گرد وغیرہ اتر جائے۔ لیکن بہت زیادہ دھونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان پر قدرتی طور پر موجود لیکٹو بے سی لائی بھی دھل جائیں گے اور اچار بنانے کے عمل میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس کے بعد اس سبزی کو تین سے ساڑھے تین فیصد نمک کے محلول میں ڈبو کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ڈبونے کے عمل میں اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے کہ اچار کیلئے ڈالی گئی سبزی کا کوئی بھی حصہ محلول سے باہر نہ رہے ورنہ اس پر فنگس لگ سکتی ہے۔

اس نمک کے محلول کی افادیت یہ ہے کہ اس میں لیکٹو بے سی لائی کے سوا دیگر تمام نقصان دہ بیکٹیریاز رفتہ رفتہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اور لیکٹو بے سی لائی سبزیوں میں موجود شکر پر عمل کرتے ہوئے اسے لیکٹک ایسڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران یہ اپنی تعداد بھی خوب بڑھاتے ہیں۔ اور مزید عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر درجہ حرارت پندرہ اور تیس کے درمیان ہوتو پانچ سے دس دن میں سبزیوں میں موجود ساری شکر لیکٹک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس دوران جو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے وہ آکسیجن کا داخلہ اچار والے برتن میں روک دیتی ہے۔ جس سے نقصان دہ بیکٹیریاز بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔

اس سٹیج پر نمک کے محلول میں ایک فیصد تک لیکٹک ایسڈ موجود ہوسکتا ہے جس سے محلول کی پی ایچ 3.5 تک گرجاتی ہے۔ اس پی ایچ پر کوئی بھی اورخرابی پیدا کرنے والے بیکٹیریاز یا فنگی عملدرآمد کے قابل نہیں رہتے یوں اس محلول میں سبزیاں لمبے عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ اس پی ایچ پر محلول اور سبزیوں کا ذائقہ زبردست مزیدار کھٹا سا ہوتا ہے ساتھ ہی اس میں ایک زبردست فرمینٹیشن کی خوشبو بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

کھیرے، تر، گاجریں، ہیلوپینوز، یا دوسری ہری مرچ، لہسن، ادرک، پیاز، بند گوبھی اور زیتون وغیرہ کے اچار جو آپ خوبصورت شیشے کی بوتلوں میں بڑے سٹورز پر دیکھتے ہیں سب اسی طریقے سے بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح سے شیشے کی بوتل میں پیکنگ کے بعد سبزیاں اور ان کے محلول کو پیکنگ کے بعد 74 ڈگری سینٹی گریڈ پر پندرہ سے بیس منٹ تک گرم کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اچار میں موجود سارے بیکٹیریاز ختم ہوجاتے ہیں جس سے مزید فرمینٹیشن رک جاتی ہے اور سبزیاں مزید نرم نہیں ہوتیں۔ اس طرح سے پیک کی گئی سبزیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک بغیر فرج کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

البتہ اگر آپ پروبائیوٹکس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو تیار شدہ اچار کو کہ جس کی پی ایچ 3.5 تک ہوچکی ہو اسے پیک کرنے کے بعد گرم کرنے کی بجائے منفی ایک ڈگری سینٹی گریڈ پر یعنی فرج میں سٹور کرلیں۔ اسطرح سارے بیکٹیریاز زندہ تو رہتے ہیں مگر بے عمل ہوجاتے ہیں۔ اس اچار کو جب استعمال کرنا چاہیں، فرج سے نکال کر کمرے کے درجہ حرارت تک گرم کرکے استعمال کریں۔ بہترین، خوش ذائقہ اور انتہائی صحت بخش پروبائیوٹکس اچار تیار ہے۔

اس پروبائیوٹکس اچار کی صحت کے لیے مسلمہ افادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ بڑے اہتمام سے یہ پروبائیوٹکس اچار کھاتے ہیں خاص طور پر کوریا میں بند گوبھی کا اسی طور پر جواچار بنایا جاتا ہے اسے کمچی کہتے ہیں اور اوسطاً فی آدمی روزانہ دوسو سے ڈھائی سو گرام کمچی kimchi کھاتا ہے۔ اسی طرح امریکی بھی ساورکراوٹ sauerkraut کے نام سے بند گوبھی کا پروبائیوٹکس اچار بناتے اور بے تحاشہ کھاتے ہیں۔

جو آم وغیرہ کا اچار ہم گھروں میں ڈالتے ہیں وہ بھی اسی عمل سے گذرتا ہے۔ جب کٹے ہوئے آموں اور ہری مرچوں یا دیگر سبزیوں پر بہت سا نمک چھڑک کر انہیں رکھتے ہیں تو نمک ان سبزیوں میں سے پا نی کھینچ کر نمک کا محلول بنا لیتا ہے۔ اس محلول میں لیکٹو بے سی لائی وہی سارے عوامل کرتے ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ جب ہم کچھ دن اس آمیزے کو ایسے ہی چھوڑ رکھتے ہیں اور ان میں آم اور دیگر سبزیاں کچھ نرم ہوجاتی ہیں۔

پھر جب ان میں سرسوں کا تیل ڈالتے ہیں تو یہ بیکٹیریاز بے عمل ہوجاتے اور اچار مزید نرم نہیں ہوتا۔ لیکن اگر نمک ڈالنے کے بعد اچار کو کچھ دن کیلئے روک کر تیل ڈالنے کی بجائے فوراً تیل ڈال دیا جائے تو اچار بہت سخت رہتا ہے۔ پھر اسے گرم کرکے نرم کرنا پڑتا ہے۔ گرچہ تیل ڈالنے سے اس کے بیکٹیریاز تو بے عمل ہوجاتے ہیں مگر تیل کا خوراک میں مقدار بڑھ جاتی ہے جو بجائے خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔

Check Also

Sattar Faizi Ki Kahani Bhukhi Kutiya

By Rehmat Aziz Khan