Aayen Laut Chalein
آئیں لوٹ چلیں
محلہ الف نگر۔ سال انیس سو اسی۔ ذہین احمد کے ہاں خاصی ریل پیل ہے۔ ذہین احمد کے بابا کچھ بیکری اور سموسے لائے ہیں۔ جبکہ والدہ اندر کمرے کی پرچھتی سے برتن اتار کر دھونے میں مصروف ہیں۔ ذہین احمد اور ان کے دوست گلی کے دوسرے گھروں سے کرسیاں لاکر بیٹھک میں ترتیب سے لگا رہے ہیں۔ کچھ دیر میں یہاں محلہ داروں کی آپس میں بنائی گئی تنظیم الف فلاحی تنظیم کا ماہانہ اجلاس ہونے جارہا ہے۔
الف فلاحی تنظیم، الف نگر کے سب باسیوں نے پہلے پہل اپنے محلے کے مسائل مل جل کر حل کرنے کیلئے بنائی تھی۔ اب اس تنظیم کے زیرِ انتظام عورتوں کو سلائی کڑھائی سکھانے کا سکول بھی چلایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد غریب گھرانے کے عورتوں کو سینا پرونا سکھانا ہے تاکہ فارغ اوقات میں وہ کچھ سی سلا کر اپنے لیے کچھ فالتو رقم کا بندوبست کر سکیں۔
ملت فلاحی تنظیم سماجی میل جول کا زبردست ذریعہ ہے۔ جہاں نہ صرف محلہ کے اجتماعی مسائل بلکہ لوگوں کے نجی مسائل بھی زیر بحث لائے جاتے اور ان کے قابل عمل حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ الف نگر میں پچیس کے قریب گھر ہیں۔ سب گھر یک منزلہ۔ کسی کے باہر پلستر ہوا اور کسی باہر نہیں سب کے دروازے لکڑی کے۔ پورے محلہ میں ایک گھر میں سکوٹر ہے، باقی سب گھروں میں صرف سائیکل۔ مگر سب لوگ مطمئن زندگی گذارتے ہیں۔ ایک دوسرے سے خوشی خوشی ملتے۔ انتہائی اچھا ماحول۔ کسی سے اونچ نیچ کا اول تو سوال ہی نہیں، اگر کوئی رنجش ہو بھی جائے تو انتہائی تحمل سے تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے مکالمہ ہوتا ہے۔ اگر بات بڑھتی تو سب لوگ بیٹھ کر معاملہ رفع دفع کروادیتے ہیں۔ بچے جہاں جی چاہتا ہے کھیلتے پھرتے ہیں، بیٹیاں سب کی سانجھی ہیں۔
پھر ایک دن، ایک گھر کے مکین دوبئی چلے گئے۔ کچھ ہی عرصہ میں گھر میں ٹی وی، وی سی آر، فرج اور موٹر سائیکل آگئی۔ باقی محلہ داروں نے کچھ عرصہ تو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مگر جب انہوں نے گھر دومنزلہ بنانا شروع کیا تو تقابل کے منہ زور جذبات سر اٹھانے لگے۔ اب لوگوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح ان کے پاس بھی کہیں سے کچھ رقم آجائے اور وہ بھی ٹی وی اور فرج لیکر آجائیں۔ اسی کشمکش میں جانے کب حلال کا دامن چھوٹ گیا۔ کسی نے دفتر میں آنکھ بچا کر کسی سائل سے رشوت پکڑی۔ تو کسی نے تھوڑا سا ترازو میں فرق ڈال دیا۔
کوئی رب کا خاص برگذیدہ بندہ اس آزمائش میں پورا اترا۔ ورنہ سارا محلہ ہی تقابل کی آگ میں جلتا ہوا حرام کی بدرو میں بہہ گیا۔ وقت کا بے رحم چرخ چلتا رہا۔ آج الف نگر میں ہر گھر تین منزلہ ہے۔ ٹائلیں، پتھر لگے ہیں۔ سب گھروں کے باہر ایک ایک دو دو گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ہرکمرے میں اے سی لگا ہے۔ مگر سب بے چین ہیں۔ نہیں معلوم ہر طرح کی آسودگی ہوتے ہوئے بھی کیا کمی ہے۔ کوئی بھی خوش نہیں۔ سانجھی دیواروں والے ہفتوں نہیں ملتے۔ کسی کے گھر کوئی افتاد اتری ہے یا کوئی خوش ہے کسی کو نہیں پڑی کہ معلوم کرے۔ ہر کوئی اپنی دنیا میں مست ہے۔ ایک گلی میں رہتے ہوئے سب گھر اکائیاں ہیں۔
بیس سال پہلے قسم دی جاسکتی تھی۔ کہ محلہ میں ایک بھی گھر ایسا نہیں جس میں لقمہ حرام کھایا جاتا ہو۔ آج ایک گھر کی قسم دینا بھی مشکل ہے کہ فقط حلال پر گذارہ ہے۔ نہ کسی چھوٹے کو بڑے کا لحاظ ہے نہ بڑے کو چھوٹے کا۔ نہیں معلوم کیا جھکڑ چلا کہ سب اتھل پتھل ہوگیا۔ ذہین احمد سفید ریش گلی کی نکڑ پر بیٹھے نم آنکھوں سے ماضی میں جھانکتے ہوئے ملتمس ہے کاش کوئی ان سے سب کچھ لے لے اور بدلے سال انیس سو اسی کا الف نگر لوٹا دے۔ کاش کوئی ان کے ساتھ اسی مطمئن عسرت میں لوٹ چلے۔ جہاں اقدار تھیں، احترام تھا، برداشت تھی۔
اے کاش۔ ہم لوٹ سکیں