47 seconds
سینتالیس سیکنڈز
جہاز برازیل کے شہر ساؤ پاولو کی طرف محو پرواز تھا۔ انگلستان کے شہر سے اڑنے والے، برازیلین ائیر لائن کے اس جہاز میں بہت سے غیر ملکی مسافروں میں وہ ایک پاکستانی بھی تھا۔ جہاز معمول کی پرواز پر تھا، عملہ مہمانوں کی مدارت میں مشغول اور مہمان اس مدارت اور سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔ یکایک نہیں معلوم کیا ہوا جہاز کا رخ زمین کی طرف ہوگیا اور وہ پوری رفتار زمین کی طرف آنے لگا۔
جہاز میں جیسے ہاہاکار مچ گئی۔ ہرطرف سے رونے اور چیخنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پائلٹ نے جہاز سیدھا کرنے کے تمام دستیاب حربے استعمال کرلیے مگر جہاز بدستور زمین کی طرف رخ کئے محو پرواز رہا۔ سینتالیس سیکنڈز اس حالت میں گذر گئے۔ اور پھر یکایک نہ جانے کیا ہوا کہ جہاز سیدھا ہوگیا۔ اور اس کے بعد پھر معمول کی پرواز کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچ کر بحفاظت اتر گیا۔ ہوابازی کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا کہ سینتالیس سیکنڈز جہاز زمین کی طرف اڑتے ہوئے زمین سے ٹکرانے سے محفوظ رہا ہو اور دوبارہ بخیریت پرواز مکمل کرکے منزل پر اتر گیا ہو۔
ان سینتالیس سیکنڈز میں جہاز کے تمام مسافروں نے موت کو شاید چھو کر بھی دیکھ لیا تھا۔ ایسے میں وہ پاکستانی دوست بتاتے ہیں کہ وہ کرسی سے سر ٹکائے آنکھیں موندیں درود پاک کا ورد کرتے رہے۔ بلاشبہ خوف اور بے چینی کی کیفیت تو آخری درجہ کی رہی ہوگی مگر باقی لوگوں کی طرح چیخ وپکار کرنے کہ بجائے کرسی سے سر ٹکائے دل مضطرب کو قابو میں رکھے بظاہر پرسکون بیٹھے رہنا بھی شاید درود پاک کی برکت کی بدولت تھا۔
ان سینتالیس سیکنڈز میں آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کہنے لگے میری ساری زندگی?بچپن سے لیکر آج تک کیا کیا، کس سے اچھائی، بھلائی کی، کس کا برا چاہا یا کیا، کس سے ناراضگی تھی۔ کس سے زیادتی ہوئی کہاں کہاں خود کو روکا جاسکتا تھا۔ سب کچھ ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چل گیا۔
کہتے ہیں، فاضل بھائی ان سینتالیس سیکنڈز نے میری زندگی بدل دی ہے۔ میں جب جہاز سے اتر کر ہوٹل پہنچا تو سب سے پہلے اپنے ناراض چچا کو فون کیا ان سے معذرت کی اور تجدید تعلق کیا۔ اس کے بعد جہاں جہاں زندگی میں کمی یا کجی تھی پکا عہد کیا کہ آج کے بعد اس کو دور کرنا ہے۔ اور سال 2005 سے لیکر آج تک اللہ کریم کی توفیق سے اس پر قائم ہوں۔ کہتے ہیں میں اپنی آمدن سے صرف استعمال کی رقم رکھ کر باقی تمام آمدن ہر ماہ ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتا ہوں۔ اور اس کیلئے خاص طور پر اہتمام کرتا کہ ایسے لوگوں کی مدد کروں جو رقم لیکر اپنا کام شروع کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے پاؤں پرکھڑا ہونا شروع کریں نہ کہ ساری زندگی امداد لیتے رہیں۔
اب ماں باپ کی خدمت کیلئے خاص طور پر وقت نکالتا ہوں۔ فارغ وقت میں اپنے علم سے لوگوں کی راہنمائی کرتا ہوں کہ صرف دولت ہی نہیں ہر اس شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے جو اس نے عطاء کررکھی ہے۔ اور جب کبھی دل کسی برائی پر آمادہ ہوتا ہے ان سینتالیس سیکنڈز کو خود پر طاری کرلیتا ہوں کہ بس اب زندگی کی ڈور ہاتھ سے چھوٹی کہ چھوٹی۔
میں آج ان کی باتیں یاد کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ آج یوم آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بھی اپنے اوپر وہ سینتالیس سیکنڈز طاری کروں کہ جیسے یہ میری زندگی کے آخری سینتالیس سیکنڈز ہوں، پھر اپنی حیات گذشتہ کی فلم پردہ تصور پر چلا کر دیکھوں کہ کب کہاں کیا کیا تھا۔ اپنی کمیوں، کجیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے بچنے کا اور اپنی صلاحیتوں کو اللہ کی مخلوق کے لیے وقف کرنے کا عہد کروں۔ کیونکہ آخر میں بھی انسان ہوں جسے بالآخر مرنا ہے اور اپنے رب کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ کیا کہتے ہیں آپ۔۔؟