1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Aap Ki Zakat Muashra Badal Sakti Hai

Aap Ki Zakat Muashra Badal Sakti Hai

آپ کی زکوٰت معاشرہ بدل سکتی ہے

مسجدیں اب شکوہ نہیں شکر ادا کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نائب انسان اور پیغمبر آخر الزماں ؐ کے حلقہ بگوش سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں صف در صف رکوع و سجود میں مصروف ہیں۔ بچپنے بھی حاضری بھر رہے ہیں، جوانی بھی اور بزرگی بھی۔ رحمتیں سمیٹی جا رہی ہیں۔ برکتیں جمع کی جا رہی ہیں۔ مغفرتیں مانگی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک کی سماعتیں ہو رہی ہیں۔ قادر مطلق کی آخری عظیم کتاب کی قراتیں بھی ہو رہی ہیں۔ نمازیں قائم ہو رہی ہیں۔ زکوٰۃ ادا کی جا رہی ہے۔ عدالتوں سے عوام کو انصاف مل رہا ہے۔

کتنے بدقسمت ہیں۔ کتنے محروم ہیں۔ مظلوم ہیں۔ وہ پاکستانی وہ مسلمان جو اس مقدس مہینے میں بھی مسجد سے دور ہیں۔ جو رمضان کا مقدس مہینہ بھی دوسرے عام مہینوں کی طرح محاذ آرائی، کشور کشائی، مال غنیمت، غیبت، الزام تراشی میں گزار رہے ہیں۔ بخششیں ان کے پاس سے گزر رہی ہیں۔ برکتیں نظر انداز ہو رہی ہیں۔ مغفرتیں ان کی مرکز نگاہ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت رمضان کی حرمت کا خیال رکھ رہی ہے۔ لیکن وہ بہت پریشان ہے کہ ریاست جس نے ان کی جان مال کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ اس ریاست کے ستون اس فریضے سے لاپروا ہیں۔

ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں۔ جانیں بے دریغ لی جا رہی ہیں۔ مال لوٹا جا رہا ہے۔ بڑے شہر ہوں قصبے ہوں، گاؤں، کہیں بھی انسانی جان محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن آفرین ہے۔ پاکستانی بزرگوں، نوجوانوں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پر کہ اس افراتفری، طوائف الملوکی، بےیقینی اور نفسا نفسی کے دَور میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔ تراویح میں قیام کر رہے ہیں۔ ان کی سماعتوں میں کلام ربانی اپنا مقام بنا رہا ہے۔

ریاست کے جو بھی ستون ہیں ادارے ہیں۔ جنہیں کروڑوں پاکستانی ٹیکس دے رہے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس دے رہے ہیں۔ تاریخ کی مہنگی ترین ضروری اشیا خرید رہے ہیں۔ وہ اپنے آئینی فرائض ادا نہیں کر رہے ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی جو بھی مراعات ہیں، سہولتیں ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی۔ کروڑوں قربانی دے رہے ہیں۔ لیکن یہ چند لاکھ ایک فی صد سہولت بھی ترک نہیں کر رہے۔ ملکی و غیرملکی قرضوں کا سارا بوجھ عام پاکستانی برداشت کر رہے ہیں۔

سلام ہے ان مخیر پاکستانیوں پر، ان رفاہی اداروں پر جو ریاست کی ذمہ داریاں اپنے سر لے کر زخمیوں کو اسپتال پہنچا رہے ہیں۔ میتوں کو غسل دے رہے ہیں۔ انہیں سرکار کی طرف سے کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے بلکہ رکاوٹیں ہیں۔ ان کی ایمبولینسیں کسٹم پر روک لی جاتی ہیں۔ سرکاری عہدیدار ان رفاہی اداروں سے بھی رشوت بالجبر مانگتے ہیں۔ ریاست ان ذمہ داریوں کے لئے اربوں روپے کا بجٹ منظور کرتی ہے۔ لیکن خرچ کرنے سے گریز کرتی ہے۔

یہ رفاہی ادارے ہم وطنوں کے عطیات سے، زکوٰۃ سے، فطرانے سے اربوں روپے جمع کرکے تعلیم، صحت، روزگار کے شعبوں میں خرچ کر رہے ہیں۔ ریاست سب کچھ دیکھتی ہے۔ ذرا سی شرم بھی نہیں آتی۔ اپنے اربوں سے ان تنظیموں کی مالی مدد نہیں کرتی۔ ایک نظریے پر قائم کی جانے والی مملکت اس وقت کسی بھی نظریے پر قائم نہیں ہے۔ بزعم خود سیاسی جماعتیں نظریات سے بالکل عاری ہیں۔ کسی جماعت کے سربراہ کی تقریر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان کو کس راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت کو وہ کن خطوط پر لے جانا چاہتے ہیں۔ نظریات سے خالی اس سیاسی کشمکش میں عوام چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے مزید لاکھوں جا رہے ہیں۔ ریاست کے والیوں کو ذرا سی تشویش نہیں ہے کہ ان چھ ساڑھے چھ کروڑ انتہائی غریب ہم وطنوں کے دن رات کیسے گزرتے ہیں۔ ایک بار مفت آٹا بانٹ کر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پورا سال اسی 5 سے 10 کلو کو گوندھتے، پیڑے بناتے گزر جائے گا۔

آٹے کی تقسیم اتنے ناقص اور ظالمانہ طریقے سے کی جا رہی ہے کہ بہت سی قیمتی جانیں آٹے کے حصول میں موت سے ہمکنار ہو چکی ہیں۔ کسی حکمران نے ان مرنے والوں کے گھر جا کر اظہارِ ہمدردی کرنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اور نہ ہی جہاں یہ موت واقع ہوئی ہے۔ وہاں کے ذمہ دار ڈپٹی کمشنر۔ ایس ایس پی کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے۔ اکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دَور میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پاکستان پولیس سروس اور پی ڈی ایم کی حکومت کوئی محفوظ بندوبست نہیں کر سکی ہے۔

حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کو ضروری اشیا ان کی قوت خرید کے اندر فراہم کریں۔ مقامی کرنسی بالکل بے قدر نہ ہو۔ قرضوں کا بوجھ زیادہ نہ ہو۔ رعایا کو نقل و حرکت میں رکاوٹیں نہ ہوں۔ روزگار کی ضمانت ہو۔ علاج معالجہ معیاری ہو اور بلا معاوضہ ہو۔ تعلیم کے حصول میں مشکلات نہ ہوں۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے تو حکمرانوں کے نااہل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔

ریاست کی یہ اکثر ذمہ داریاں ایدھی پورا کر رہے ہیں۔ چھیپا والے پورا کر رہے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے دعائیں الخدمت کے لئے کہ وہ ریگ زاروں، جنگلوں، پہاڑوں، ساحلی علاقوں میں راشن کی تقسیم، تعلیم کی اشاعت اور سردیوں گرمیوں کے کپڑے بانٹنے میں محو ہیں۔ ہماری ساری ہمدردیاں اور نیک خواہشات اخوّت والوں کے لئے کہ ہر مصیبت اور ضرورت کے وقت وہ اپنے ہم وطنوں کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ انڈس اسپتال کے سربراہ اور عملے کو سلام کہ وہ انتہائی معیاری علاج مفت فراہم کر رہے ہیں۔

دی سٹیزن فاؤنڈیشن، عالمگیر، سیلانی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسکول سسٹم اور ایسی ہی دوسری تنظیمیں جو بلوچستان، سندھ میں، پنجاب میں، کے پی کے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں بے لوث، بے غرض اربوں روپے کے رفاہی کام کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ان تمام خواص و عوام کی خدمت میں ہدیۂ سپاس، جو اِن تنظیموں کو خطیر عطیات اور زکوٰۃ دے رہے ہیں اور وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ ریاست کو زکوٰۃ دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تنظیمیں اصل مستحقین کی مدد کرتی ہیں۔ اس لئے زکوٰۃ کا حق یہیں ادا ہو سکتا ہے۔ یتیموں، بیواؤں، بیروزگاروں، معذوروں، زخمیوں، مریضوں کے لئے جو تنظیم بھی کام کر رہی ہے، ان سب کو زکوٰۃ، عطیات ملنے چاہئیں۔

آخر میں خدائے بزرگ و برتر کے حضور دست دعا بلند کرتے ہیں کہ ہمیں تو نے ایک عظیم مملکت۔ ایک اہم جغرافیائی حیثیت کے ساتھ عطا کی ہے۔ اس ریاست کے شایان شان ہمیں حکمران بھی عنایت کر۔ ہمارے اعلیٰ عہدوں پر بہت ہی ادنیٰ لوگ قابض ہیں۔ ان سے ہمیں نجات دلوا دے۔ ایسے قائدین پیدا کر، جو اس حساس اور اہم مملکت کو اس کا جائز مقام دلوائیں۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat