Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hira Umair
  4. Pardes Ke Dukh

Pardes Ke Dukh

پردیس کے دُکھ

کسبِ معاش انسان کو در در بھٹکاتی ہے، مگر اپنے ملک میں رہ کر ایک روٹی کم کھا لینا پردیس کی تنہا زندگی گزارنے سے کئ بہتر ہے۔ چار جوان ہوتی کنواری بیٹیوں کی ذمداریوں نے جب والدین کی راتوں کی نیندیں اُڑانا شروع کیں تب ماں جی اور ابا جان نے مجھے یعنی اپنے اکلوتے سپوت کو پردیس روانہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائ۔ اور وہاں جانے سے قبل مجھے شادی کی کھونٹے سے بھی باندھ دیا۔

شادی انتہائ سادگی سے طے پائ۔ اپنی شادی کے ٹھیک دو ماہ بعد ہی اپنی نئ نویلی دلہن کو ہجر کی نجانے کتنی طویل ہونے والی جدائ دے کر پردیس سُدھار گیا۔ وہاں پہنچنے کے ٹھیک مہینہ بعد مجھے باپ بننے کی نوید سُننے کو ملی میں خوش بھی تھا اور دکھی بھی، اس حال میں اُسے چھوڑ کر آنا مجھے افسردہ کر گیا۔ بیٹے کی خوشخبری بھی بذریعہ فون پر ہی ملی اور پھر اتنے دنوں کے طویل انتظار کے بعد اُس کی محض تصویریں ہی دیکھنا نصیب ہوئ۔

وہ دور بھی تھا، اور جب اتنی جدید سہولتیں مہیا نہ تھی، پانچ سال کی انتھک محںت کا پھل کچھ یوں ملا کے چاروں بہنیں اپنے گھروں کو رخصت ہو گئ۔ قرضوں کے بوجھ سے بھی آزادی مل گئ تھی۔ تب پہلی بار میں نے خط میں اپنے والدین سے ذکر کیا کے میں اپنے وطن اب واپس آنا چاہتا ہوں اپنے بیٹے بیوی سے ملنا چاہتا ہوں گھر کی یاد ستاتی ہے۔

میں منتظر تھا، کے جیسے ہی خط کا جواب موصول ہو میں اُڑ کر جلدی اپنے دیس اپنوں کے درمیان دوبارہ لوٹ آؤں۔ مگر ہمیشہ ہی والدین کبھی کوئ عذر پیش کرتے کبھی کوئ مجبوری ظاہر کرتے گھر کے حالات تو کبھی گھر کی مرمت کا خرچہ غرض ہر دفعہ ہی کوئ نہ کوئ ضرورت آڑے آجاتی اور میں والدین کے آگے بے بس ہو جاتا۔

ابّا جان بھی مجبور تھے، کیا کرتے آمدنی کم تھی اخراجات زیادہ تھے۔ اور پھر مجھ سے وابستہ اُمیدیں میرے پیروں میں زنجیریں بن کر جکڑی ہوئ تھی۔ حالانکہ ہر عام آدمی کی طرح میں بھی اپنی زندگی اپنے بیوی بچے کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا اُن لمحات کو یادگار بنانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ ہو نہ سکا بیٹے کو دیکھنے کی چاہ دن رات مجھے بے چین رکھتی مگر پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا کے یہ سب اُس کہ مستقبل کہ لیے بھی تو ہے۔

یوں پردیس میں مجھے رہتے ہوۓ بارہ سال گزر گۓ ان بارہ سالوں میں، بس دو بار ہی میں پاکستان جا سکا وہ بھی محض دس سے زیادہ دن نہیں ظاہر ہے، نوکری پیشہ آدمی تھا اتنی چھٹیاں بھی مل جاتی غنیمت تھی، فیملی کے ہوتے ہوۓ سات سمندر پار تنہا رہںا آسان بات نہیں دن رات محنت کرو اور پھر تھک کر جب واپس آؤ تو گرما گرم کھانا پیش کرنے والا کوئ نہیں سارے ہی کام خود کرنے پڑتے ہیں۔

اور وہی ایک لگی بندھی زندگی تھک کر سو جاؤ اور صبح اُٹھ کر دوبارہ کام پر لگ جاؤ۔ کئ عیدیں آئیں اور گزر گئیں میں تنہا اکیلا ان خوشی کے دنوں میں اُداس رہتا۔ کیا کرتا یہاں عید منانے کے لیے کون سا کوئ اپنا موجود تھا، اپنے ملک میں گزاری جانے والی عیدیں وہاں کی رونقیں یاد آنے لگتی تو دل یک دم سے یہاں سے اُچاٹ ہو جاتا۔

اب یہ اکیلا پن مجھے بیمار کرنے لگا تھا شادی شُدہ ہو کر بھی مجھے وہ سُکھ نہ مل سکے جو ہر عام آدمی کو ملا کرتے ہیں۔ ایک ہی تو میرا بیٹا ہے، ے اُس کے ساتھ بھی میں وقت نہیں گزار سکتا، مگر شاید پردیس میں رہنے والوں کو اُن کے عزیز پیسہ کمانے کی مشین ہی سمجھ لیتے ہیں بہتر سے بہترین حالات کی آس میں عمر بیتی چلی جاتی ہے۔

اب اماں کا جب خط آتا تو کسی بہن کی فرمائش کا ذکر ہوتا تو کبھی کسی بھانجے بھانجی کی فرمائش ہوتی۔ کبھی اُن کہ سُسرالیوں کے لیے تحائف تو کبھی اُن کے شوہروں کو خوش کرنے کے لیے جتن کرنے پڑتے، کبھی کبھی بیوی کے لیے بھی افسوس ہوتا کے کیا اُسے دلہن بنا کر میں بس گھر میں سجانے کے لیے لایا تھا۔ لیکن خدا کا یہ بھی احسان تھا کہ وہ ایک شکر گزار عورت تھی ہر حال میں راضی رہتی۔

مگر پھر بھی دل پر بوجھ سا تھا، حسرت ہی رہ گئ کے جو قیمتی وقت ساتھ گزارنا چاہیے تھا۔ وہ سب تو یہاں پردیس میں پیسہ کمانے میں لگ گیا۔ وقت کی گرد میرے اندر جمتی جا رہی تھی۔ اس بار تو میں نے خط میں واضح اعلان کردیا تھا کے میں پاکستان ہمیشہ کہ لیے آجاؤں گا چاہے مجھے وہاں ٹیکسی چلانی پڑے یا کوئ بھی مزدوری کرنی پڑے میں کرلوں گا کم پیسے ملے گے کوئ مسئلہ نہیں۔

لیکن جو دل کا سکون مجھے چاہیے وہ تو مجھے مل جاۓ گا، بس مجھے اب گھر والوں کا ساتھ چاہیے۔ لیکن اگلے خط میں ابّا کی خراب طبعیت اور علاج کے لیے بڑی رقم نے پھر میرے بڑھتے قدموں کو روک دیا میں نے دن رات گدھا مزدوری کر کے پیسے بھجواۓ۔ بیس سال کی اس قیدیوں والی زندگی نے مجھے بیزار کردیا تھا، اب تو کچھ حد تک چاندی بھی میرے بالوں میں نظر آنے لگی تھی۔

اُس پر سے شوگر کی بیماری بھی مجھے اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی۔ کام کرنے میں بھی پہلے والی چُستی مفقود تھی۔ اس دوران ابّا بھی کُوچ کر گۓ ہزاروں جتن کرنے کے بعد بھی فلائٹ وقت پر نہ مل سکی اور میں باپ کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہ گیا جنازے میں شریک ہونے سے اُنہیں کندھا دینے سے رہ گیا اُف یہ ایک ایسا دکھ تھا کے میں بیان نہیں کر سکتا میں اکلوتا نرینہ اولاد ہونے کا فرض بھی ادا نہ کر سکا۔

کیا فائدہ ہوا اتنی بھاگ دوڑ کا کاش کے جن دنوں میں ابّا حیات تھے میں اُن کے پاس رہ لیتا اُن کی خدمت کر پاتا اب یہ حسرت تا عمر میرے دل میں ہی رہ جانی تھی۔ دل پر کیا گزرتی ہے یہ رب ہی جانتا ہے، ان آسائشوں کو پانے اور سب گھر والوں کو ایک اچھی زندگی دینے میں میری اپنی ذات تو کہیں کھو ہی گئ اب مجھ میں نہ تو وہ توانائ تھی نہ ہی پہلے سی پُھرتی۔

پردیسیوں کے جو دکھ ہوتے ہیں، وہ شاید ایک پردیسی ہی سمجھ سکتا ہے۔ ے گھر والوں کے ہوتے ہوۓ سالوں پراۓ دیس میں گزار دینا عمر کا ایک حصہ گزار دینا بڑا تکلیف دیتا ہے اپنے پیاروں کے آخری دیدار سے محروم ہوجانا بڑا اذیت دیتا ہے۔ وہ وقت بھی آگیا کے بیٹا جوان ہو گیا۔ اور ماں بھی اب بسترِ مرگ پر تھی۔

اب کے بیوی کی فرمائش تھی، کے بیٹے کو ڈاکٹری کرنی ہے اعٰلی تعلیمی ادارے میں پڑھانا ہے، فیس کے لیے چار لاکھ کا انتظام کردوں اور ہر ماہ کے لیے ایک لاکھ میں نے خط کو بند کیا اور آرام دہ کُرسی پر سر ٹکاۓ آنکھیں مُوند لی۔ بند پلکوں سے پھلانگ کر ایک موتی میرے بالوں میں جذب ہو گیا۔ ان ہاتھوں کو ابھی اور گھسنا باقی تھا ان بالوں میں لگتا ہے۔ جب تک پوری چاندی نہیں اُتر جاتی شاید تب تک میری واپسی کے کوئ امکان نہیں ہیں۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz