Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hira Umair/
  4. Nak Charhi Fatima Aur Main

Nak Charhi Fatima Aur Main

نَک چڑھی فاطمہ اور میں

بچپن سے ہی میری اور اُس نک چڑھی فاطمہ کی جنگ چلی آرہی تھی میں اُس سے عمر میں ایک سال بڑا تھا۔ چچا اور چچی نیچے والے پورشن میں آغا جان یعنی ہمارے دادا حضور کہ ساتھ رہتے اور ہم اُوپر والے پورشن میں ہماری دادو یعنی کہ ہماری پیاری دادی جان کہ ساتھ رہتے۔ نک چڑھی فاطمہ کو میرے چاچوں کی پہلی اُولاد ہونے کا شرف حاصل تھا اس کہ بعد اُس کی دو عدد شرارتی بہنوں کا نمبر آتا تھا جن سے میری خوب بنتی تھی۔

میں خیر سے گھر بھر کا اکلوتا چشم و چراغ تھا دادو کی آنکھوں کا تارا اور گھر بھر کا لاڈلا یہاں تک کہ چچی اور چاچوں بھی مجھ پر وارے نیارے ہوتے۔ اور بس یہی سب باتیں اُس نک چڑھی فاطمہ سے ہضم نہ ہوتی۔ میری صبح اُس کو تنگ کیے بغیر شروع نہ ہوتی اور فاطمہ بی بی کہ گلے سے اُس وقت تک نوالا نہ اُترتا جب تک وہ میدان میں آستینے چڑھاۓ مجھ پر جوابی گولہ باری نہ کردیتی۔

محترمہ پڑھائی میں کافی ذہین اور ہوشیار تھی۔ ہم ایک ہی یونیورسٹی میں تھے وہ میری جونیئر تھی۔ اُس کی دوستیں میری شخصیت سے کافی متاثر تھی اور یہی وجہ تھی کہ اکثر میں اُسے چڑھانے کہ لیے اُس کی دوستوں کی محفل میں جا بیٹھتا اور اُسے سِرے سے نظرانداز کرتا اُس کی دوستوں کہ ساتھ خوب گَپیں لڑاتا باتوں باتوں میں فاطمہ کہ کارناموں کہ بھانڈے بھی پھوڑ دیتا پھر اُس وقت تو وہ محض مجھ پر گُھوریاں ڈال کر وہاں سے واک آؤٹ کر جاتی مگر پھر گھر آ کہ میرے خوب لَتے لیتی لیکن اگر اُتںے میں بھی اُس کا بدلہ پورا نہ ہوتا تو آغا جان کہ آگے خوب رو دھو کہ ڈرامے رَچاتی اور پھر آغا جان کی عدالت میں میری حاضری لگ جاتی۔

گھر والوں کے بقول ہم وہ دو تلواریں تھیں جو ایک میان میں نہیں رہ سکتی تھی۔ یوں پاک بھارت کی یہ جنگ ایک دوسرے پر میزائل سے حملے کرتے رہتے۔ پتھر میں جونک اُس وقت لگا جب ایک دن ہادی جو میرے گروپ کا ایک قریبی دوست تھا۔ ایک دن اُس نے مجھ سے باتوں ہی باتوں میں فاطمہ کا ذکر کیا یونیورسٹی میں سب ہی واقف تھے کہ ہم کزنز تھے۔ میں نے ہادی کی باتوں کا سرسری سا جواب دیا اُس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ ہادی فاطمہ میں دلچسپی لے رہا تھا۔ پھر ایک دن میں نے یونیورسٹی کی کینٹین میں اُسے فاطمہ کہ ساتھ بات کرتے دیکھا۔ مجھے یہ منظر دیکھنا بہت ناگوار گزرا مگر اردگرد بہت سے لوگ بیٹھے ہوۓ تھے اس لیے میں نے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن اُس شام میں گھر گیا تو سیدھے نک چڑھی فاطمہ کہ کمرے میں جا پہنچا۔

عموماً ایسا شازو نادر ہی ہوتا تھا کہ وہ میرے کمرےمیں آتی یا میں اُس کہ کمرے میں جاتا۔ مجھے اپنے سامنے دیکھ کر حسبِ عادت اُس نے منہ کہ زاویے بگاڑے تھے۔ آج تم میرے دوست ہادی کہ ساتھ کینٹین میں کیا کر رہی تھی؟ میرے سوال کرنے پر تو جیسے اُس کو پتنگے ہی لگ گۓ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو سالار تم بھی تو میری دوستوں کہ ساتھ اُٹھتے ہو بیٹھتے ہو باتیں کرتے ہو میں نے کبھی تم سے سوال کیا ہے؟ میں اُس کی بات پر لاجواب ہو گیا۔ آج اُس سے مقابلہ بازی کرنے کہ لیے میرے پاس الفاظ ہی جیسے ختم ہو گۓ تھے جب کوئی جواب نہ بن پڑا تب میں نے بھی اپنے آنے پر لعنت بھیجی اور جُھنجھلاتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کہ بعد کچھ دن یونہی ہمارے درمیان خاموشی رہی۔

ایسا پہلی بارہوا تھا کہ ہمارے درمیان میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ گھر والوں نے بھی یہ بات محسوس کی تھی۔ ہادی کو میں جب بھی نک چڑھی فاطمہ کہ ساتھ دیکھتا مجھے بہت غصہ آتا ایک دو بار میں نے ہادی کہ سامنے برہمی بھی ظاہر کی مگر وہ ڈھیٹ بنا رہا۔ پھر ایک دن ہادی کہ والدین فاطمہ کہ لیے رشتہ لے آۓ۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ہادی واقعی فاطمہ کہ لیے اس قدر سنجیدہ تھا کہ اُس نے رشتہ بھیج دیا پھر میں نے سوچا ہادی نے رشتہ تب ہی بھیجا ہو گا جب وہ جانتا ہوگا کہ فاطمہ بھی راضی ہے۔

میں نے اپنے اندر شدید جلن ہوتی محسوس کی یہ سوچ ہی میرے تن بدن میں آگ لگا گئی کہ فاطمہ بھی ہادی کو پسند کرتی ہے۔ میں بد دلی کہ ساتھ مہمانوں کا لحاظ کیے بغیر ہی گھر سے نکل آیا اور خالی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا آخر ایک جگہ رک کر گاڑی سے باہر نکل آیا۔ میں اپنی دل کی کیفیت پر بہت حیران تھا میں فاطمہ کہ لیے اس قدر حساس کیوں ہورہا تھا اگر ہادی اور وہ ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں تو مجھے اس بات سے اتنا فرق کیوں پڑ رہا تھا۔ ہادی میرا دوست تھا میں اُسے جانتا تھا کہ وہ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور ایک اچھا قابل لڑکا تھا۔ پھر کیا بات تھی جو مجھے اس قدر مضطرب کر رہی تھی۔

میں نے آنکھیں موند کر سر گاڑی سےٹکا لیا۔ آنکھوں میں نک چڑھی فاطمہ کا چہرہ چھم سے اُتر آیا۔ بچپن سے لے کر آج تک تو کبھی اُن کہ درمیان کوئی خوشگوار واقع نہ گزرا تھا ہمیشہ ہی میں اُسے زچ کرنے میں اور تنگ کرنے میں لگا رہا اور وہ خونخوار جنگلی بلیوں کی طرح میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی رہتی۔ شاید مجھ سے کسی تیسرے کا ہمارے درمیان آجانا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ دل کی کیفیت اب کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی محترمہ فاطمہ بی بی دل کہ کسی کونے میں اپنا تخت سنبھالے بیٹھی تھی۔ مگر یہ تو میرے دل کی حالت تھی فاطمہ تو ہادی کو پسند کرتی تھی دل ایک دم اُداس ہو گیا۔ اچانک ہی سب کچھ برا لگنے لگا تھا جانے کیا گھر والوں نے ہادی کہ والدین کو جواب دیا ہو گا میں سوچ کر رہ گیا۔

گھر کافی دیر سے پہنچا میری توقع کہ برعکس سب کہ سب لان میں موجود تھے میرے گھر میں داخل ہوتے ہی سب کی نظریں میری جانب مرکوز ہو گئی میں بلا وجہ ہی گھبرا گیا۔ شاید آغا جان کو میرا مہمانوں کہ سامنے بنا سلام کیے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنا پسند نہیں آیا تھا۔ میں معذرت کرنے کی غرض سے آغاجان کی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اُن کی بات کر سُن کر میرے ہاتھوں کہ طوطے ہی اُڑ گۓ آغا جان کہ بقول اگلے ہفتے میری اور اُس نک چڑھی فاطمہ کی منگنی تھی۔ میں بُت بنا کھڑا تھا سب کہ چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ یہاں تک کہ نَک چڑھی فاطمہ بھی مسکرا رہی تھی مجھے اس کی دماغی حالت پر شُبہ ہوں ے لگا۔

میں جب گھر سے نکلا تھا تو منظر کچھ اور تھا اب کچھ اور۔ پھر میرے علم میں یہ بات لائی گئی کہ میری پیاری دادو اور آغا جان نے بچپن سے ہی فاطمہ اور میرا رشتہ طے کر دیا تھا۔ جس پر ہم دونوں کہ ہی اماں ابا کو کوئی اعتراض نہ تھا لیکن ہم دونوں پر یہ راز آج ہی آشکار ہوا تھا۔ ہادی کے والدین سے معدزت کر کہ اُنہیں رخصت کر دیا تھا۔ مگر میرے گلے میں ابھی بھی یہ سوچ کر ہڈی پھنسی ہوئی تھی کہ نک چڑھی فاطمہ نے ابھی تک ہنگامہ کیوں نہیں کھڑا کیا تھا وہ تو ہادی کو پسند کرتی ہے پھر اب تک منہ سیے کیوں بیٹھی ہے شاید گھر والوں کی وجہ سے سمجھوتا کر رہی ہے میں اپنے تہی اندازے لگا رہا تھا۔

آخرکار رات کو جب سارے لوگ خوابِ خرگوش کہ مزے لوٹ رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور اُس سے بات کرنے کہ لیے نیچے چلا آیا اتفاق سے مجھے وہ لان میں ہی نظر آگئی۔ مجھے اپنے روبرو دیکھ کر اُس نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور پھر دوبارہ کتاب کو پڑھنے لگ گئی اُس نک چڑھی فاطمہ کی یہی عادت مجھے زہر لگتی تھی وہ کمالِ بے نیازی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ میں سمجھ سکتا ہوں تم نے گھر والوں کہ دباؤ میں آ کہ منگنی کہ لیے ہاں کہہ دیا ہے۔ تم ہادی کو پسند کرتی ہو نہ؟ تم فکر مت کرو میں گھر والوں کو سمجھا لوں گا وہ مان جاۓ گے زندگی میں شاید پہلی بار میں پوری طرح سے سنجیدہ تھا اور اُس سے ہمدردی کر رہا تھا۔

میری بات پر وہ ٹوٹے ہوۓ اسپرنگ کی طرح اُچھلتی ہوئی کھڑی ہوئی تھی۔ نام مت لو اُس ہادی کہ بچے کا ناک میں دم کر کہ رکھ دیا ہے اُس نے میرا اتنے دنوں سے اُسے سمجھا رہی ہوں کہ وہ جو چاہ رہا ہے ویسا نہیں ہو سکتا مگر وہ ہے کہ دیمک کی طرح چپک ہی گیا ہے اور تم، تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں ہادی کو پسند کرتی ہوں۔ اُس کی قینچی کی طرح چلتی زبان کو کسی طرح بریک نہیں لگ رہے تھے۔ اب مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنے دنوں سے ہادی کہ ساتھ کیا رازونیاز کر رہی تھی۔ خیر وہاں سے تو میں سر پر پیر رکھ کر بھاگ آیا اس کہ آگے ہمت ہی نہ پڑی کہ اُس سے پوچھتا کہ پھر اُس نے مجھ سے منگنی کہ لیے ہاں کیوں کردی۔ میں تو اُس کا ہمیشہ سے دشمنِ اول رہا ہوں۔

ٹھیک ایک ہفتے بعد میری نک چڑھی فاطمہ سے منگنی ہو گئی۔ اُور اُسی دن مجھے جو بات پتہ لگی اُس نے میری خوشی کو چار چاند لگا دیے۔ منگنی میں اُس کی دوستیں بھی مدعو تھی جن میں سے ایک جو اُس کی سب سے قریب ترین سہیلی تھی اُس نے مجھے بتایا کہ محترمہ میری محبت میں نہ جانے کب سے گوڈے گوڈے ڈوبی ہوئی ہے بس دکھاتی نہیں جتاتی نہیں وہ بھی اس لیے کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ میں اُس کہ معاملے میں کافی غیر سنجیدہ ہوں۔ اب اُن محترمہ کو کیا پتہ تھا کہ آگ تو دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے بس دونوں انجان بنے ہوۓ تھے۔ یوں ہماری چٹ منگنی کہ بعد پٹ بیاہ بھی ہو گیا۔ اور پھر ہم دو تھے اور ہمارے دو۔

اللہ نے جڑواں بچوں سے بھی نوازا۔ بس اگر کچھ نہ بدلا تھا تو میرا اور میری نک چڑھی بیوی کا لڑنا جھگڑنا جی ہاں بچے ضرور ہو گۓ تھے مگر ہم اب بھی بچے ہی تھے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ مجھے اُسے چھیڑنے اور تنگ کرنے میں اب بھی بڑا مزہ آتا تھا۔ میں چنگاری لگاتا اور وہ شعلہ جوالہ بن کر پورے گھر میں مجھے دوڑاتی اور ہمارے بچے سمیت سب گھر والے تماشائی بنے ہمارے کارناموں سے لُطف اندوز ہوتے۔

نَک چڑھی فاطمہ میرے دل کی مکین ہے وہ ایک وفا شعار بیوی اور میرے دو انمول رتن بچوں کی اماں ہے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan