Ana Bari Ya Rishte?
اَنا بڑی یا رشتے؟
"میں" لکھنے میں، سننے میں، بولنے میں محض تین حروف سے مل کر بننے والا ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہی "میں" سے "میں" تک کا سفر کب اَنا میں بدل جاتا ہے ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ رشتے ناطوں کا لہو چوسنے والے یہ الفاظ رشتوں کی ڈوریوں کو کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جاتے ہیں اور یہی نہیں بعض اوقات اَنا کی اس جنگ میں رشتے ناطے فنا ہو جاتے ہیں۔
میاں بیوی کا رشتہ پروردگار نے بہت مضبوط بنایا ہے انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے مگر پھوٹ وہاں سے پڑنا شروع ہوتی ہے جب دونوں فریقین کی اَنا اپنے رشتے سے بڑی ہو جاتی ہے۔ عورت یہ سوچ کر پہل نہیں کرتی کہ کہیں شوہر یہ نہ سمجھ لے کہ وہ جھک گئی ہے یا ڈر، دب گئی ہے۔ آج کی عورت اپنے آپ کو مرد سے کم تر، کم عقل کہلوانا اپنی بے عزتی سمجھتی ہے یہاں بھی انا آڑے آ جاتی ہے۔
دوسری جانب شوہر حضرات بھی اپنے آپ کو مجازی خدا ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ بیوی کے آگے جھک جانے کو غیرت کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں یا پھر اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے زن مرید ہونے کا طعنہ سننا نہیں پسند کرتے ہیں۔ اس لیے آگے وہ بھی نہیں بڑھتے اور یوں گاڑی کے یہ پہیے جب ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے ہیں تو گاڑی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتی اور تا حیاتی کا یہ سفر بیچ راہ میں ہی ادھورا رہ جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے کئی واقعات نگاہوں سے گزرتے ہوۓ ہم دیکھتے ہیں جہاں بھائی بھائی سے بھائی بہن سے یہاں تک کہ والدین اور جوان اولاد کے مابین بھی انا کی جنگ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور یہ جنگیں کبھی کبھار تو نسلوں تک چلتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خون اس قدر سفید ہو جاتے ہیں کہ جنازے تک میں لوگ یہ کہہ کر شریک نہیں ہوتے کہ ساری عمر اس شخص نے بول چال نہ کی اپنی "میں" میں رہا۔
شاید اس انا کی جنگ میں انسان سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے تبھی وہ یہ بات نہیں سوچتا کہ آخر میں ایک دن انجام تو اُس کا بھی یہی ہونا ہے۔ یہ انا، یہ "میں" کی گردان یہ گردن سے لگا کلف سب یہی رہ جانا ہے سہارا چار کندھوں کا تو سب کو ہی چاہیے۔ مگر صد افسوس اشرف المخلوقات کی یہ صفت بڑی ہی بری ہے کہ اَنا اور رشتوں کے ترازُو میں بد قسمتی سے اَنا کا پلڑا زیادہ بھاری ہو جاتا ہے۔
"میں" کی چاہت میں بھٹکتا انسان چلتے چلتے کب تنہا ہو جاتا ہے اُسے بہت دیر میں سمجھ آتی ہے۔ کیونکہ دنیا اَنا والوں کے ساتھ نہیں چلتی۔ اچھے لوگ تو اپنا مقام ڈھونڈ کر جگہ بنا لیتے ہیں مگر اَنا کا مارا شخص اپنے بناۓ اس خول میں تنہا رہ جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اَنا فطرتاً ہر انسان میں ہوتی ہے جھکنا کوئی پسند نہیں کرتا ہے مگر بعض اوقات اپنی اَنا کو کُچل کر دل پر پیر رکھ کر آگے نکل جانے میں در حقیقت ہماری جیت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ کچھ لوگ اتنے خود دار ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے سامنے جُھکنا اپنی عزتِ نفس کو مجروح کرنا سمجھتے ہیں لیکن لوگ اُنہیں اَنا پرست کا ٹیگ دے کر کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ انا کو صرف محبت سے ہی کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا مکمل ختم ہو جانا نا ممکنات میں سے ہے۔ لیکن آج کے دور میں ملاوٹ کا چونکہ ہر رشتہ بن چکا ہے اس لیے محبتیں بھی خالص نہیں رہی ہیں محبت میں بھی انا آڑے آجاتی ہے۔ انا کی دیواروں کے مینار اتنے اُونچے ہو جاتے ہیں کہ معصوم محبت اَنا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
تحریر لکھنے کا مقصد صرف یاد دہانی تھا کہ کہیں آپ نے بھی اپنے رشتوں کو اَنا کی خاطر نظر انداز تو نہیں کیا ہوا یا انہیں چھوڑ تو نہیں دیا، کہیں آپ بھی صرف اپنی اَنا کی خاطر ایک سنگین غلطی کے مرتکب تو نہیں بن رہے ہیں۔ ٹھہریے اور سوچۓ ابھی شاید وقت ہاتھوں سے نہیں نکلا ہے اپنی اَنا کا خول اُتار کر پھینک دے اور اپنی اس "میں" سے وقت رہتے باہر نکل آۓ۔ کیونکہ اگر اس اَنا کی جنگ میں اَنا جیت گئی تو آپ رشتے ہار جائیں گے اور یقیناً یہ بد ترین خسارہ ہے۔